Pages

میڈیا کا بنیادی مقاصد سےاعراض: اہل فکر کی ذمہ داری



تحریر: راجہ اکرام الحق
ذرائع ابلاغ کے بنیادی مقاصد میں سے اہم ترین تین مقاصد ہیں، تفریح، ذہن سازی اور معلومات کی فراہمی۔ اگر ان تین مقاصد کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اصل مقصد ذہن سازی ہے جس کے لیے تفریح کے مختلف ذرائع اور معلومات کی فراہمی کو بطور وسیلہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ذہن سازی در اصل قوم سازی Nation building   ہے اور اس کے لیے معاشرے کی ضرورت، اس کی سماجی و معاشرتی اقدار اور وقت و حالات کے تقاضوں کو مد نظر رکھ کر منصوبہ سازی کرنا اور لائحہ عمل طے کرنا ضروری ہے  تب ہی ان مقاصد کا حصول ممکن ہوگا۔ شاید ذہن سازی اور انسان سازی کے اس اعلیٰ  مقصد کی وجہ سے ہی صحافت کو مقدس پیشہ گردانا جاتا ہے۔
ان مقاصد کی روشنی میں اگر ہم وطن عزیر کے ذرائع ابلاغ کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارا میڈیا نہ صرف یہ کہ بنیادی مقاصد سے کوسوں دور ہے بلکہ کسی اور کے اہداف کی تکمیل کرتا نظر آتا ہے۔ تفریح اور معلومات کی فراہمی کے لیے جو معیارات ذرائع ابلاغ نے طے کیے ہوئے ہیں ان میں نہ تو ہمارے معاشرے کی ضروریات کا لحاظ ہے، نہ معاشرتی و سماجی اقدار کو درخور اعتناء سمجھا گیا ہے اور نہ ہی وقت اور حالات کے تقاضوں کو خاطر میں لایا گیا ہے۔
اس بے راہ روی کی اہم وجوہات میں سرمایہ دارانہ ذہنیت، استعمار کی نقالی اور ذہنی مرعوبیت اہم ترین ہیں۔ سرمایہ دارانہ ذہنیت نے ذرائع ابلاغ کو سرمایہ داروں کے مفادات کو تحفظ فراہم کرنے، ان کے منافع کو دگنا کرنے اور ان کے لیے عوام کا خون نچوڑنے کی کے نئے افق تلاش کرنے کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ معلومات اور تفریح کے ذرائع میں سے ان چیزوں کا انتخاب کیا جاتا ہے جن کا معاشرے کی ضروریات سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہوتا۔ بنیادی مسائل سے آگاہی کے بجائے اشتہارات اور گلیمر پر سارا سارا دن گزر جاتا ہے۔ اشتہارات میں بھی ان اشیاء کو جگہ دی جاتی ہے جو نوے فیصد عوام کی نہ تو ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی ان تک رسائی کی سکت۔ ملکی مسائل سے آگاہی کے بجائے غیر ملکی فلموں اور فلم سٹارز کی تعریف و توصیف میں گھنٹوں صرف کر دیے جاتے ہیں۔
ایک اسلامی ملک جس میں  بسنے والے چھیانوے فیصد  سے زائد مسلمان ہوں، جن کے بزرگوں نے اسلام کے نام پر ایک مملکت حاصل کرنے کے لیے ناقابل بیان قربانیاں دی ہوں اس میں رائج ذرائع ابلاغ کا معیار، اس کا ضابطہ اخلاق، اس کی ترجیحات اور اس کے وسائل کا استعمال کن خطوط کی روشنی میں اور کس بنیاد پر ہونا چاہیے اس حوالے سے اصولا کوئی ابہام نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کچھ عاقبت نا اندیشوں نے ابہام پیدا کرنے کی کوشش کی اور کسی حد تک کامیاب بھی ہو گئے۔ شومئی قسمت کہ وطن عزیز کے ہر اہم ادارے اور ذرائع ابلاغ کے ہر اہم چینل پر  ایسے ہی افراد کا کہیں قبضہ اور کہیں اثر و رسوخ ہے۔
بسا اوقات یوں لگتا ہے کہ دنیا بھر کا میڈیا فی الحقیقت ایک ہی  مرکز سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ ایک مخصوص لابی ہے جس نے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کو خرید رکھا ہے  اور کوئی بھی پروگرام اس کی  طے کی گئی منصوبہ بندی کے خلاف نشر نہیں ہو سکتا۔ کسی چیز کا ہوا کھڑا کرنا ہو تو دنیا بھر کا میڈیا یک جان ہو جاتا ہے اور شرق و غرب میں ایک ہی صدا سنائی دیتی ہے۔ اور اگر اس میڈیا کے ارباب اختیار نہ چاہیں تو بڑے سے بڑا مسئلہ کوئی توجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ جسے چاہیں مجرم بنا دیں اور جسے چاہیں ہیرو بنا دیں ۔  جسے چاہیں ترقی کے بام عروج پر پہنچا دیں اور جسے چاہیں صفر کی قدر سے بھی نیچے لے جائیں۔
غیر مسلم اور غیر نظریاتی ممالک میں موجود ذرائع ابلاغ کسی نہ کسی حد تک اپنے ملکی مفاد  کو پیش نظر رکھتے ہیں لیکن اسلامی ممالک میں میڈیا کی صورتحال بہت تشویش ناک ہے۔ معاشرتی اقدار اور اخلاقی ضوابط تو درکنار ملکی مفاد تک کا لحاظ نہیں رکھا جاتا ۔ ایسے میں ارباب اقتدار اور اہل فکر و دانش کو اس اہم شعبے کی جانب توجہ دینے کی سخت ضرورت ہے۔ حکومت ایک ایسا ضابطہ اخلاق طے کرے جو صرف حکومتی مفاد کا تحفظ نہ کرتا ہو بلکہ ملکی مفاد، معاشرتی و سماجی اقدار اور اخلاقی ضابطوں  کا جامع ہو۔ جس میں ملکی مسائل اور ان کے حل کے لیے عوامی شمولیت کے حوالے سے  آگاہی کے ساتھ ساتھ اخلاقی و سماجی قدروں کے پرچار اور تحفظ کا اہتمام بھی ہو۔ اگر اب بھی حفاظتی اقدامات نہ کیے گئے اور ذرائع ابلاغ اسی نہج پر رواں دواں رہے تو ہمارے موجود خاندانی نظام،  سماجی قدروں اور ملکی مفاد کا بھی جنازہ نکل جائے گا۔
محب وطن اہل فکر و دانش اور اصحاب ثروت کا کام ہے کہ وہ  آگے بڑھ کر ذرائع ابلاغ کے میدان میں جگہ بنائیں، نئے ذرائع پیدا کریں اور معاشرے کی فکری نشو و نما میں اپنا کردار ادا کریں۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>