Pages

سانگھڑ: سیاسی بساط میں تبدیلی مگر ۔۔۔!





سانگھڑ کا نام سنتے ہی ذہن میں سب سے پہلے جو نام آتا ہے وہ پیر صاحب پگارا کا ہے۔ اور یہ کہنا کسی طور خلاف حقیقت نہیں ہو گا کہ "سانگھڑ اور پیر صاحب پگارا" لازم ملزوم ہیں کیوں کہ جب سے وطن عزیز معرض وجود میں آیا ہے تب سے سانگھڑ نہ صرف روحانی طور پر پیر صاحب کی مریدیت میں رہا ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی یہاں مسلم لیگ فنکشنل کی ہی حکمرانی رہی ہے۔ سانگھڑ کی سیاست پر فنکشنل لیگ ایک طویل عرصہ اس طرح قابض رہی ہے کہ یہ بات مشہور ہو گئی تھی کہ اگر پیر صاحب انتخابات میں کسی نشست پر "کھمبا" بھی کھڑا کر دیں تو وہ بلا مقابلہ جیت جائے گا۔
لیکن یہ سب کچھ پیر پگارا ہفتم شاہ مردان شاہ کی حیات تک ہی درست رہا۔ 11 جنوری 2012ء بروز بدھ کو ان کی وفات کے  بعد ہر گزرتے دن کے ساتھ نہ صرف گدی کی گرفت ڈھیلی پڑ رہی ہے بلکہ سیاسی نظم و ضبط اور اثر و رسوخ بڑی تیزی سے رو بزوال ہے۔
پیر شاہ مردان شاہ کی وفات کے بعد جب دستار فضیلت بڑے فرزند پیر صبغت اللہ شاہ راشدی کے سر پر رکھی گئی اور باقی برادران نے نہ صرف ان کی حمایت کی بلکہ سیاسی سرپرستی بھی متفقہ طور پر ان کے سپرد کی تو یہ تصور کیا جا رہا تھا کہ قیادت کی تبدیلی اور نسبتاً نوجوان قیادت کی آمد سے نہ صرف روحانی اثر کا دائرہ وسیع ہو گا بلکہ سیاست میں بھی خوش آئند تبدیلیاں رونما ہوں گی۔ لیکن گزرتے وقت نے ان اندازوں کو غلط ثابت کر دیا۔
ابتدا  میں تو نئے پیر پگارا نے بڑا جوش و خروش دکھایا، نئے فیصلے کیے، کچھ پرانی روایات کو توڑا (سندھی ٹوپی اور اجرک وغیرہ کا استعمال)، سندھ کی قوم پرست جماعتوں کو ساتھ ملا کر سندھ  کی سیاست میں بڑی ہلچل مچانے کی کوشش کی اور اہم پیش رفت کے طور پر 17 دسمبر 2012ء حیدرآباد میں ایک جلسہ عام کا انعقاد کر دیا۔ سندھ کی سیاست میں بلاشبہ یہ ایک اہم تبدیلی پیش رفت تھی اور توقع کی جا رہی تھی کہ مئی 2013ء میں منعقد ہونے والے انتخابات میں سندھ کی سیاسی بساط میں بڑے پیمانے پر تبدیلی رونما ہو گی اور پی پی پی کی روایتی اور جاگیردارانہ سیاست کے مقابلے میں نئے چہرے سامنے آئیں گے جو سندھ کی تقدیر بدلنے میں کردار ادا کریں گے۔
لیکن 2013ء کے انتخابات میں ایک بار پھر پاکستان پیپلز پارٹی بازی لے گئی اور سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی۔ جبکہ فنکشنل لیگ نے نئی قیادت کے علی الرغم ترقی کے بجائے زوال کی جانب سفر کا آغاز کر دیا۔ اگرچہ عام اتنخابات میں اپنی سابقہ اور موروثی نشتیں حاصل کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو گئے لیکن عوام کو نظر انداز کرنے کے رویے میں تبدیلی نہ لانے کی وجہ سے اپنی نشستوں پر اپنی گرفت برقرار نہ رکھ سکے جس کا واضح ثبوت چند ہی ماہ بعد منعقد ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج ہیں۔
بطور مثال صرف ایک نشست این اے 235 کا تذکرہ مفید ہو گا۔ اس تذکرے کی وجہ اس سیٹ کی اہمیت ہے۔ عام انتخابات میں پیر شاہ مردان شاہ کے منجھلے فرزند صدر الدین راشدی نے دو حلقوں سے حصہ لیا اور دونوں میں کامیابی حاصل کی۔ بعد ازاں این اے 236 اپنے پاس رکھا اور 235 خالی کر دیا۔ اسی سال اگست میں جب اس خالی کردہ نشست پر ضمنی انتخابات ہوئے تو پی پی پی نے شاذیہ مری کو اپنا امیدوار نامزد کیا جس نے کم و بیش 10 ہزار کے مارجن سے کامیابی حاصل کی جس کے مقابلے میں فنکشنل لیگ کے منجھے ہوئے سیاستدان اور علاقے میں اثر و رسوخ رکھنے والے خدا بخش راجڑ تھے۔ باوجود اس کے کہ راجڑ صاحب وفاقی وزیر بھی رہ چکے ہیں اس نشست پر کوئی کمال نہ دکھا سکے حالانکہ 2010ء میں جب یہ نشست غلام دستگیر راجڑ کی نا اہلی کی وجہ سے خالی ہوئی تھی تو خدا بخش راجڑ یہاں سے بلا مقابلہ منتخب ہو گئے تھے۔

ہار جیت کھیل کا حصہ ہے لیکن اصل چیز ہوتی ہے اسپورٹس مین اسپرٹ اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ۔ لیکن بصد افسوس یہاں مفقود ہے۔ نہ عام انتخابات میں فنکشنل کی کامیابی نے ان کے رویے میں تبدیلی لائی اور نہ ضمنی انتخابات میں ناکامی ان پر اثر انداز ہو سکی۔ عوام کا کوئی پرسان حال پہلے تھا نہ اب۔ لیکن پی پی پی نے اس خلا کو محسوس کیا اور اسے پر کرنے کے لیے محنت کی۔ صوبہ سندھ کے باقی اضلاع میں پی پی پی کا کچھ نہ کچھ اثر رہا ہے لیکن سانگھڑ میں باوجود کوشش کے کبھی کامیابی نہ ہو سکی تھی۔ شاید اسی وجہ سے اس موقع کو غنیمت جانتے ہوئے سانگھڑ پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس محنت کے اثرات بڑی تیزی سے نظر آنا شروع ہو رہے ہیں۔
عوام کی ایک قابل ذکر تعداد کی نہ صرف نظریں پی پی پی پر ہیں بلکہ وہ اپنا آئندہ کا سیاسی قبلہ پی پی پی کو بنانے کے لیے بیتاب نظر آتے ہیں۔ شنید ہے کہ عنقریب وزیر اعلیٰ سندھ اور فریال تالپر سندھ کے دیگر قائدین کے ہمراہ سانگھڑ کا دورہ کرنے والے ہیں جس موقع پر علاقہ کی اہم شخصیات اور ان کے حامیوں کی ایک قابل ذکر تعداد فنکشنل لیگ کو خیرباد کہہ کر پی پی پی سے ناطہ جوڑنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ تبدیلی ہمیشہ خوش آئند ہوتی ہے اور یقیناً یہاں بھی اس کے کچھ مثبت اثرات مرتب ہوں گے، عوام کی آواز کو کچھ نہ کچھ پذیرائی ملے گی اور عشروں سے فائلوں کے بوجھ تلے مسائل حل ہونے کی امید پیدا ہوگی۔
جہاں یہ بات خوش آئند ہے کہ عوام میں شعور بیدار ہو رہا ہے اور گدی کی روایتی سیاست دم توڑ رہی ہے وہیں یہ بات باعث تشویش ہے کہ اس خلا کو پر کرنے والی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی بھی کرپشن کی سرخیل، روایتی، موروثی سیاسی جماعت ہے جس کی سیاست کا عظیم محور جاگیردارانہ سیاست ہی ہے۔ گدی کی روایت سے نکل کر جاگیرداری نظام میں الجھ جانا آسمان سے گر کر کھجور میں اٹکنے کے مترادف ہو گا۔ 

سانگھڑ اور اہلیان سانگھڑ کے حق میں بہتر یہ ہوتا کہ کوئی تیسری قوت سامنے آتی جو ان روایتی جماعتوں سے ہٹ کر کوئی نیا لائحہ عمل لے کر میدان میں آتی تا کہ سانگھڑ کے حالات بدلنے کی توقع کی جا سکتی ۔ لیکن حالات سے لگتا ہے کہ جغرافیائی اور ترقیاتی اعتبار سے پس ماندہ علاقے کو ابھی مزید کرب سے گزرنا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

موسم انکشافات: تخریب میں مضمر تعمیر کا پہلو





پاکستانی سیاسیت بلا شبہ نازک دور سے گزر رہی ہے۔ وطن عزیز جمہوریت اور آمریت کے سنگم پر کھڑا ہے، اک قدم آگے گیا تو جمہوریت، پیچھے ہٹا تو آمریت اور یہیں کھڑ ا رہا تو موسم انکشافات و الزامات جو واضح طور پر سیاست کے خد و خال پر اثر انداز ہو گا۔ حالات کا تناؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مخالف تو رہے ایک طرف، ایک ہی صف میں کھڑے لوگ باہم دست و گریباں ہونے کو ہیں۔ مخالفین پر الزام لگانے اور ان کے کچے چٹھے کھولنے کے بجائے اپنے ہی ہم خیال و ہم رقاب لوگوں کو بے نقاب کرنے کی ظالم رسم چل پڑی ہے۔
 
پہلے جاوید ہاشمی نے اپنے ہی قائد اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو بے نقاب کیا اور اس کے مزعومہ انقلاب کی قلعی کھول دی۔ ابھی اس کایا پلٹ کا اثر پوری طرح زائل نہ ہوا تھا کہ اسی جماعت کا ایک اور اہم رہنما شاہ محمود قریشی اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں سر عام بے نقاب ہو گیا۔ شاہ صاحب نے یقینا الطاف حسین حالی کا یہ مصرعہ گنگنایا ہو گا کہ "دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت"۔ حسن اتفاق دیکھیے جس مارچ اور دھرنے کے پیچھے وردی کی کارفرمائی کی پیش گوئیاں گردش کر رہی ہیں سارے انکشافات انہیں افواہوں  کو تقویت دیتے معلوم ہوتے ہیں۔ طویل دھرنا اور مارچ  جس مقام پر کھڑا ہے یہاں ایسے دھچکے یقینا جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں لیکن عمران خان اور تحریک انصاف ان کو بانداز احسن سہار گئے۔ حالات ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں اور تناؤاس قدر ہے کہ نہ عمران نے ہتک عزت کا دعویٰ کیا اور نہ حکومت کی جانب سے ان معاملات کی تحقیق کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کیوں کہ اس وقت دونوں ہی جانب جنگی صورتحال نافذ ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اس صورتحال سے حکومت اور موجودہ جمہوریت کو بچانے کی خاطر جمع ہونے والا اتحاد بجا طور پر محظوظ ہو رہا تھا لیکن کہتے ہیں کہ "دشمن مرے تے خوشی نہ کرییے سجناں وی مرجاناں"۔
حکومت اور اس کے جمہوریت بچاؤ اتحادیوں کی خوشی کا مزہ اس وقت کرکرا ہو گیا جب موسم انکشافات و الزمات نے یہاں بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔ جمہوریت بچانے کی خاطر ساری جماعتیں(99 فیصد) متحد تھیں اور معاملات حسن اسلوبی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ چوہدری نثار کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اپنی توپوں کا رخ مارچیوں کے بجائے اپنے اتحادیوں کی جانب موڑ کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کا براہ راست نشانہ ایوان بالا میں پی پی کے قائد ایوان معروف قانون دان اعتزاز احسن بنے۔ حکومت کے لیے اور بالخصوص نواز شریف کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش کا باعث ہے اسی لیے ان کی جانب سے معافی اور معذرت کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی برابر حصہ ڈال رہے ہیں لیکن چوہدری نثار کی جانب سے بیان واپس لینے یا وضاحت کرنے کی کوئی خبر تا حال احقر کی نظر سے نہیں گزری۔
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چوہدری نثار پوری غزل سنا دیں اور چوہدری اعتزاز احسن بردباری سے اسے برداشت کر جائیں اور اپنا کلام پیش نہ کریں۔ دو دن بعد انہوں نے بھی جواب آں غزل پیش کر کے محفل کو کشت و زعفران بنا دیا ۔کلام نرم و نازک کے عادی نے اپنی روایت سے ہٹ کر جارحانہ انداز سے بیٹنگ کی۔

ایسے وقت میں جب حکومت کے لیے اپنی بقا اور نواز شریف کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ سب سے اہم بلکہ عزت کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس کو بچانے کے لیے ایک ایک جماعت کا تعاون انتہائی اہم ہے ایسے میں چوہدری نثار کی جانب سے اس پیش رفت نے سب کو انگشت بدنداں کر دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چوہدی نثا ر کا اپنے بیان پر ڈٹے رہنا اور میاں برادران کا مسلسل معافی پر معافی مانگے چلے جانا اس بات کا غماز ہے کہ مسئلہ سنجیدہ اور پیچیدہ ہے۔ یہ صورتحال جہاں ایک جانب بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے وہیں اس میں عمران اور اس کے ہمنواؤں کے لیے تسکین کا سامان بھی ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے جس میں عزت سادات رہتی ہے نہ شریفوں کی دستار۔

حالات کے اس تناؤ، الزام تراشی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش سے اگرچہ ملک اور عوام کا بے حد نقصان ہوا ہے، لیکن اس تخریب میں ایک پہلو تعمیر کا بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الزام تراشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کام پاکستانی سیاست میں کوئی نئی روایت یا انہونی بات نہیں لیکن جس طرح کے حالات گزشتہ نصف ماہ سے چل رہے ہیں، تناؤ اور بے یقینی کی جو کیفیت ہے، عوام جس کرب و اذیت سے گزر رہی ہے اور پھر ذرائع ابلاغ جس طرح پل پل بدلتے حالات اور چہروں سے اترتے نقاب عوام کو دکھا رہے ہیں، سوشل میڈیا نے جس طرح اظہار ما فی الضمیر کی کھلی آزدی فراہم کی ہے ایسے وقت میں سیاست دانوں کا یوں باہم دست و گریبان ہونا، ملکی مفاد پر ذاتی مفاد اور انا کو ترجیح دینا، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے لیے ملکی سالمیت اور استحکام کو داؤ پر لگانا یقینا عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گا۔

ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے اذہان واضح ہو رہے ہیں، دھند چھٹ رہی ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور جیالے اپنے قائدین سے متنفر ہو رہے ہیں اور نئے اور مخلص قائدین کی تلاش میں ہیں۔ نہ صرف روایتی سیاسی جماعتوں کے کارکنان بلکہ نئی ابھرنے والی تحریک انصاف کی موجودہ حکمت عملی نے اس کے اپنے کارکنان کو بھی شدید مایوس کیا ہے۔ ہو سکتا ہے جو کام انقلاب اور دھرنے سے نہیں ہوا وہ اہل سیاست کی حرکتیں کر دکھائیں، عوام کی آنکھیں کھل جائیں، اور وہ تبدیلی اور انقلابی شعور بیدار ہو جس کا پاکستان اور عوام پاکستان کو برسوں سے انتظار ہے۔عین ممکن ہے کہ اس تخریب  میں مضمر ہو ایک صورت بھلائی کی۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

انقلاب کی گرتی ساکھ




تحریر: راجہ اکرام الحق


14 اگست 2014 ءسے جاری آزادی مارچ حقیقی اور لغوی آزادی کی جانب بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔ اور خدشہ ہے کہ اگر یہ سفر اسی رفتار سے جاری رہا تو سرزمین پاکستان پر آزادی کا ایسا سورج اپنی پوری تابانی کے ساتھ ضو فشاں ہو گا کہ "مادر پدر آزادی" بھی منہ چھپاتی پھرے گی۔ لیکن برا ہو جاوید ہاشمی کا جنہوں نے اپنی خود نوشت "ہاں میں باغی ہوں" کی لاج رکھتے ہوئے ایک بار پھر بغاوت کر دی۔ ہاشمی صاحب کو تو اس بغاوت کے کئی فائدے ہو سکتے ہیں لیکن عمران خان کے حق میں یہ بغاوت خود کش حملے سے کم نہیں۔ البتہ ہاشمی صاحب کے انکشافات اور خدشات سننے کے امپائر کی انگلی کے تعین میں کچھ رہنمائی ملی۔

یار لوگوں نے اٹھتے ہی ہاشمی صاحب کی نیت میں فتور تلاش کر لیا۔ نہ تحقیق کی گزارش نہ الزامات عائد کرنے والے پر کوئی کیس اور نہ ہرجانے کا دعویٰ۔ لیکن اگر جاوید ہاشمی کی جانب سے لگائے گئے الزامات کا جائزہ لیا جائے اور ان کا تقابل ان کی بدن بولی (باڈی لینگویج) سے کیا جائے، ان کے سابقہ کردار پر نگاہ ڈالی جائے، زمینی حقائق اور منظر نامے کو پیش نظر رکھ کر سوچا جائے تو کوئی ایک وجہ ایسی نہیں ملتی جس کی بنیاد پر ہاشمی صاحب کی نیت میں فتور والے نظریے کو تقویت ملتی ہو۔ نیز یہ بات بھی اہم ہے کہ ہاشمی صاحب کے انکشافات اپنی نوعیت کے نئے الزامات نہیں بلکہ آزادی مارچ کے آغاز پر ہی اصحاب فہم نے اشاروں کنایوں میں تو کبھی کھلے بندوں ان خدشات کا اظہار کر دیا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، دونوں جماعتوں کے دھرنے کے طریقہ کار، وقت کی ہم آہنگی اور مطالبات کی یکسانیت کی وجہ سے یہ تاثر پختہ ہوتا گیا کہ واقعتا کوئی قوت ہے جو اس سارے پتلی تماشے کی ڈور کو بڑے ماہرانہ انداز سے حرکت دے رہی ہے، ہاشمی صاحب نے اس مفروضے پر مہر تصدیق لگا کر اسے حقیقت کا روپ دے دیا۔
 
ہاشمی صاحب کے انکشافات اور خدشات کو ایک جانب رکھ کر بھی اگر دیکھا جائے اور دونوں تنظیموں کے پروگرامات اور مارچ کا جائزہ لیا جائے تو یہ تصور پختہ ہو جاتا ہے کہ واقعتا سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے۔ ایک ہی وقت کا انتخاب، ایک ہی روٹ کا انتخاب، دھرنے کے لیے ایک ہی جگہ کا انتخاب، ایک مطالبے میں مکمل یکسانیت اور یکساں ضد اور ہٹ دھرمی کا مظاہرہ، ایک ہی وقت میں مارچ کو آگے بڑھانے کا فیصلہ، ریڈ زون اور پارلیمینٹ ہاؤس میں گھسنے اور توڑ پھوڑ کی مشترکہ کوشش، پی ٹی وی پر حملہ اور بالآخر 2 ستمبر کو "دو جان یک کنٹینر"  کا عملی مظاہرہ چیخ چیخ کر کہہ رہا ہے کہ میچ فکس تھا اور سب کچھ پیشگی طے شدہ تھا۔ لیکن ہاشمی صاحب نے جو پسوڑی ڈال دی ہے اس کے بعد امپائر کو اپنی ساکھ بچانے کی فکر زیادہ ہے اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ اب میچ کا فیصلہ مختلف ہو سکتا ہے۔
 
انقلاب مارچ ایک طرف، آزادی مارچ اپنی جگہ، مطالبات کا قرین عقل ہونا یا نہ ہونا اور فریقین کا رویہ اپنی جگہ، تاہم یہ بات تو اظہر من الشمس ہے کہ ہاشمی صاحب کی پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کی حیثیت عرفی زائل ہو چکی، اس سارے ڈرامے میں ان کا کردار مشکوک ہو چکا بلکہ اگر غیر جانبداری سے جائزہ لیا جائے تو منتخب حکومت کے خلاف خفیہ سازش کرنے اور اس سازش میں قابل احترام ملکی ادارے کو ملوث کرنے کے جرم میں بغاوت کا مقدمہ بھی ہو سکتا ہے۔ لیکن اس وقت ملکی حالات اس قدر گھمبیر ہیں کہ شاید اس جانب کسی کی سوچ ہی نہیں جا رہی۔
 
ابھی ہاشمی صاحب کے انکشافات پر سیر حاصل بحث ہوئی ہی نہیں تھی کہ مرید حسین نے تحریک انصاف کے ایک اور سرکردہ رہنما اور اپنے بڑے بھائی شاہ محمود قریشی کے حوالہ سے انکشافات کا دفتر کھول دیا۔ ان الزامات میں بھی مرکزی کردار فوج ہی نظر آ رہی ہے جس نے تحریک انصاف کے "آزادی مارچ" کو مزید مشکوک بنا دیا اور ہچکولے کھاتی کشتی کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ 

اس سارے منظر نامے کے بعد سوال یہ ہے کہ اب عمران خان کے وعدوں، دعووں، جمہوریت پسندی، آزدی مارچ کی کیا حیثیت رہ گئی ؟ کیا ان حالات میں عمران خان کا نواز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے پر اڑا رہنا عقل مندی ہے۔ کیا نواز شریف کا استعفیٰ زیادہ ضروری ہے یا عمران خان کا اپنی حیثیت عرفی بحال کرنا زیادہ ضروری ہے؟ کیا اگر یہ انکشافات بے بنیاد ہوتے، یا الزامات میں صداقت نہ ہوتی تو عمران خان اس طرح ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتے یا ہتک عزت کا کیس کر کے بھاری بھرکم ہرجانے کا دعویٰ کرتے؟عمران خان یا تحریک انصاف بے شک تسلیم نہ کریں لیکن فوج کا فوری اظہار لا تعلقی اور عمران کی خاموشی بزبان حال بہت کچھ کہہ گئی ہے۔ یہی سوالات قریشی صاحب کے حوالہ سے بھی اٹھائے جا سکتے ہیں۔

دانش مندی کا تقاضا یہی ہے کہ خان صاحب اور تحریک انصاف اب وزارت عظمیٰ کی جنگ کو کچھ وقت کے لیے موؤخر کر کے پہلے اپنی حیثیت عرفی کی بحالی پر توجہ دیں اس سے قبل کہ ان کا تیزی سے گرتا ہوا قبولیت کا گراف صفر سے بھی نیچے لڑھک جائے اور سوائے افسوس کے کچھ نہ بچے۔ اور عوام نے تحریک انصاف اور عمران خان کی صورت میں اپنے حسین مستقبل کا جو خواب دیکھا تھا وہ مکمل چکنا چور نہ ہو جائے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

آزادی مارچ کا مایوس کن اختتام




راجہ اکرام الحق

کہتے ہیں کہ ایک جنگل  میں باقی تو سبھی جانور تھے لیکن گدھے کی نسل کے جانور نہیں ہوا کرتے تھے۔ کافی عرصہ بعد کہیں سے ایک گدھا جنگل میں آ وارد ہوا ،  اس کی ڈیل ڈول، قد کاٹھ اور رعب دار آواز نے ہر جانور کو مرعوب کر دیا، یہاں تک کہ شیر بھی  اس سے خوفزدہ رہتا اور مڈ بھیڑ سے کتراتا تھا ۔    بطور خاص جب وہ اپنی 'رعب دار' آواز میں 'خطاب' کرتا تو سارا جنگل سہم سا جاتا۔  گدھے نے جب دیکھا کہ شیر بھی مجھ سے سہما سا رہتا ہے اور باقی جانور بھی میری باتیں بڑے دھیان سے سنتے ہیں اور ایک آواز پر جمع ہو جاتے ہیں تو اس نے خود کو جنگل کا 'بادشاہ' سمجھنا شروع کر دیا ۔ 

ایک دن کسی بات پر شیر اور گدھا آمنے سامنے ہو گئے،  بات 'تو تو ، میں میں ' اور 'تو تکار' سے بڑھ کر باہم دست و گریبان ہونے پر پہنچ گئی، شیر بیچارہ گھبرایا ہوا تھا کہ یہ عجیب الخلقت جانور نہ جانے کس طرح وار کرے گا اور کون کون سے اوزار استعمال کرے گا ،  اسی خوف کی وجہ سے اس نے حملہ کرنے میں پہل نہیں کی۔ گدھا چونکہ گدھا ہوتا ہے اس نے جھوٹی طاقت کے زعم میں آ کرشیر پر حملہ کر دیا  اور اٹھتے ہی  اپنا واحد اور آخری حربہ ''دولتی'' کی بوچھاڑ  کر دی۔ شیر اپنا بچاؤ کرتا رہا اور انتظار کرتا رہا کہ شاید یہ پہلا وار ہے اس کے بعد نہ جانے اور کون سے توپ تفنگ نکلیں گے، لیکن جب کافی دیر تک گدھے نے ''دولتی'' پر ہی انحصار کیا تو شیر نے اطمینان کا سانس لیا  اور گدھے سے کہا ، "میں ویسے ہی اتنے دن خوفزدہ رہا، تیرے پاس تو ''جوش خطابت'' اور ''دو لتی'' کے سوا کچھ بھی نہیں ۔
نہ جانے کیوں  17 اگست 2014 کی رات آزادی مارچ کے شرکاء سے تحریک انصاف کے قائد عمران خان کے خطاب کو سن کر یہ قصہ یاد آ گیا۔ جس روز حکومت کے خلاف مارچ کا فیصلہ کیا گیا تھا تب سے شائع ہونے والے بیانات کا اگر جائزہ لیا جائے اور اس وقت آزادی مارچ جس خستہ حال کا شکار ہے اس سے موازنہ کیا جائے تو مذکورہ بالا قصہ بے طرح یاد آتا ہے۔   

اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ مارچ ، احتجاج اور دھرنا ایک جمہوری حق ہے اور ہر شہری اسے جب اور جہاں چاہے استعمال کر سکتا ہے۔ لیکن ہر چیز کی کچھ حدود و قیود، کچھ طور طریقے اور کچھ پیمانے ہوتے ہیں جن کو ملحوظ خاطر نہ رکھا جائے تو نتائج مایوس کن نکلتے ہیں۔  حالیہ مارچ میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ تبدیلی اور انقلاب کی دعویدار جماعت اپنے ساتھ عوامی مطالبات کی ایک فہرست لاتی، ایسے مطالبات جو معقول بھی ہوتے، قابل قبول بھی ہوتے اور قابل حصول بھی۔ جن کا تعلق صرف فرد واحد کی ذات سے یا اس کی انا سے نہ ہوتا بلکہ وہ براہ راست عوامی مطالبات ہوتے۔ پہلے سے یہ طے کیا جاتا کہ ان مطالبات میں سے کتنے فیصد کامیابی کو اطمینان بخش سمجھا جائے گا  اور ''کچھ لو کچھ دو'' کی صورت اگر پیش آئے تو کس حد تک سمجھوتہ کیا جا سکتا ہے۔ مارچ کی پوری کاروائی مرحلہ وار طے کی جاتی اور پھر اس کے مطابق آگے بڑھا جاتا اور اپنے مطالبات منوانے کی کوشش کی جاتی۔

لیکن یہاں صورتحال یہ تھی کہ تیاری اور انتظام صفر، نہ ایجنڈا نہ کوئی لائحہ عمل، یہاں تک کہ زندگی کی اہم ترین تقریر جس سے قبل 12 گھنٹے خلوت میں تپسیا کی گئی، سوچ و بچار کے کٹھن مرحلے سے گزرا گیا، دھیان و گیان کی منازل طے کی گئیں اس تقریر کا بھی 90 فیصد "رقیب روسیاہ" کے 'لقموں' پر مشتمل تھا۔ 
جہاں تک مطالبات کی  بات ہے تو آزادی مارچ کا جواز بخشنے والے مطالبات واقعی اہم تھے اور ان پر بات چیت بھی ہو سکتی ہے اور ان کو منوانے کے لیے دھرنا بھی دیا جا سکتا ہے۔ لیکن آزادی مارچ کے آغاز کے بعد  اس  پورے قصے میں سوائے وزیر اعظم کے استعفیٰ کے کوئی قابل ذکرمطالبہ  سامنے نہیں آیا۔ اوریہ مطالبہ ہر خاص و عام کی نظر میں غیر معقول بھی تھا، نا قابل قبول بھی تھا اور ناقابل حصول بھی۔  یہ مطالبہ اور پھر اس کے حصول کے لیے اپنایا گیا طریقہ کار سوائے چند افراد کے سب کی نظر میں یکساں طور پر غلط تھا اور آج تک اس طریقہ کار کی مذمت کی جا رہی ہے۔ کیوں کہ اگر بفرض محال عمران خان کی تمنا پوری ہو جاتی اور اس مارچ کے نتیجہ میں وزیر اعظم استعفیٰ دے دیتے تو ایک ایسی روایت چل پڑتی جو تباہ کن ہوتی۔ پھر آئینی اور جمہوری طریقہ سے بننے والی حکومتیں پسند نا پسند کی بنیاد پر دھرنوں اور مارچوں کے ذریعہ گرانے کی رسم چل پڑتی اور زبوں حالی کا شکار ملک مزید تباہی کی دلدل میں دھنستا چلا جاتا۔  کیوں کہ اگر ایک   صوبے میں مخلوط حکومت بنانے والا فرد یہ کر سکتا ہے تو وفاق میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت یہ کام بطریق احسن کر سکتی ہے۔ 

عمران خان کو اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل بیٹھ کر اپنے رویوں اور طریق کار کا از سر نو جائزہ لینا چاہیے نیز اپنے ارد گرد افراد  کو پرکھنا بھی چاہییے کہ کون مخلص ہیں اور کون اپنی سیاست کے مردہ گھوڑے  میں عمران خان کے ذریعہ جان ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ 

نیز یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ سیاسی معاملات کو کبھی بند گلی میں داخل نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہمیشہ اتنی گنجائش رکھیں کہ اگر نظر ثانی کرنے  کی ضرورت پیش آئے تو کوئی قابل عمل صورت اختیار کی جا سکے۔ ورنہ اگر خود کو ہی عقل کل سمجھ کر ہر بات کو اپنے من پسند انداز سے منوانے کی روش جاری رکھی گئی  اور مخلص دوستوں کے بجائے اقتدار کے حریصوں کے مشوروں سے اپنا مستقبل طے کرنے کی کوشش کی تو انجام اس سے بھی مایوس کن ہو سکتا ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>