Pages

اب کے عید کیسے منائیں؟

 
 
عید کا سماں ہے ، ہر انسان شاداں و فرحاں ہے ، بچے اجلے لباس پہنے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود میں مگن ہیں ، ایک بچہ افلاس و یاس کی تصویر بنے آبدیدہ نگاہوں سے حسرت کے ساتھ بچوں کو کھیلتے اور خوش ہوتے دیکھ رہا ہے ۔
ایک انتہائی شفقت بھری آواز پر بچہ چونک گیا ۔ بیٹا آپ نے نئے کپڑکیوں نہیں پہنے؟ یہ سوال سن کر بچے کی آنکھوں میں آنسو تیز ہو گئے ، کہنے لگا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے ۔ اصرار پر کہنے لگا کہ میرے والدین نہیں ہیں، کون مجھے نہلا دھلا کر تیار کرے گا، کون میرے لئے نئے کپڑے لائے گا؟۔ یہ سن کر سوال کرنے والا آبدیدہ ہو گیا، پیار سے پوچھا۔ کیا تم یہ نہ چاہو گے کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں، فاطمہ تمہاری بہن ہو، علی تمہارے چچا ہوں، اور حسن اور حسین تمہارے بھائی (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔بچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان گیا۔آپ اسے ساتھ لے گئے، نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے ، یہ سب دیکھ کر بچے کی چہرے پر بھی بشاشت آ گئی، اک حوصلہ ملا کہ اس کا بھی کوئی ہے۔ بچہ گیا اور دوسرے بچوں میں گھل مل گیا۔
یہ ایک چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر خوشی کے سب سے بڑے موقع کے حوالے سے ہمارے لئے مشعل را ہ ہے۔ رحمت کائنات، فخر موجودات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں درس دیا کہ”عید صرف خوش ہونے کا ہی نہیں بلکہ خوش کرنے کا نام ہے، اور اصلی خوشی وہی ہے جو دوسرے کے چہرے پر سجائی جائے“۔

عید کیا ہے؟ ایک تہوار ، خوشی کا تہوار ۔ خوشی کا تہوار وہ قدر مشترک ہے جو ہر قوم اور مذہب میں پائی جاتی ہے،اور ہر قوم کے کچھ دن اور مواقع ایسے ہیں جن میں وہ خوشی مناتے ہیں، انداز اپنے اپنے مذہب، تہذیب اور روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل اور فطری دین ہے ،فطرت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے بھی اپنے پیرو کاروں کے لئے خوشی اورغم کے حوالے سے نہ صرف تعلیمات دی ہیں بلکہ خوشی اور تفریح کے مواقع بھی مہیا کیے ہیں ۔ اسلام صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس لئے دیگر اقوام کے مقابلے میں ہماری خوشیاں منانے کا انداز بھی ذرا مختلف ہوتا ہے۔
عہد رسالت میں دیکھیں تو عید کے دن مسجد نبوی کے صحن میں نیزہ بازی کے مقابلے ہو رہے ہیں، مختلف فن کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر دیکھتی رہتی ۔۔
نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کی تفریح کا بھی خیال رکھنا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے اور اس میں ہمارے لئے تعلیمات ہیں ۔
اگر ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں، اپنے خوشی منانے کے طریقے کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ صحت مند تفریح کے بجائے اغیار کی تقلید میں اس طرح کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں بیہودگی اور فحاشی کے تمام مظاہر خوشی کے نام پر سجائے جاتے ہیں۔
صحت مند تفریح کے بجائے مضر صحت و اخلاق سرگرمیاں سر عام کی جاتی ہیں، سینما گھروں میں رونق اور بوڑھے والدین گھروں پر اکیلے۔ اپنے بچوں کے سوا کسی کے بچوں کا کوئی احساس نہیں، افلاس زدہ بچوں کو اپنے ساتھ گھر لا کر نئے کپڑے پہنانا تو کجا انہیں اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے، کپڑے خراب ہو جائیں گے، جراثیم لگ جائیں گے۔

بلا شبہ عید ایک خوشی کا موقع ہے اور ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ روزہ بھی منع کردیا گیا ہے اور فرمایا کہ ”یہ کھانے پینے اور خوش ہونے کے دن ہیں“۔
لیکن اگر ایک نظر ہم امت مسلمہ کی حالت پر دوڑائیں تو کیا اس کے بعد بھی ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم پھلجھڑیاں اڑائیں، قہقہے لگائیں، شادیانے بجائیں، سویاں کھائیں، فلمیں دیکھیں اور ناچیں گائیں؟ کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنوں کا احساس ہے نہ وعدوں کا پاس؟ کیا نبوی طریقہ خوشی ہمارے لئے قابل عمل نہیں، کیا ہمیں یہ نہیں سکھایا گیا کہ خوش ہونا ہی نہیں بلکہ خوش کرنا بھی ہے۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں، لاچار ہیں، بے بس ہیں، ظالم طاقتور ہے، ہم اپنے بھائیوں کے لئے ، اپنی بہنوں کے لئے اپنی ماؤں اور بیٹیوں کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ۔ انہیں پنجہ ظلم سے آزادی نہیں دلا سکتے تو کم از کم اس عید کے موقع پر ان مظلوموں کے لئے چند گھڑیاں مختص تو کر سکتے ہیں، جن میں ہم بارگاہ رب العزت میں دست دعا دراز کریں ، کہ اللہ انہیں ظلم سے نجات دلائے، اللہ ظلم کی کمر توڑ دے۔ اللہ تعالی افغانستان، کشمیر، فلسطین، اور دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان مظلوم ہیں ان کو ظلم سے نجات دے، ظلم کی سیاہ رات چھٹ جائے اور آزادی کا نور ان پر سایہ فگن ہو
عید کا دن اہل پاکستان سے درخواست کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ
افلاس ہے رقص کناں جن کی ٹوٹی پھوٹی کٹیاوں میں
تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاوؤں میں
وہ افغانی کہساروں میں جن کے ماں باپ شہید ہوئے
ان معصوموں کی چیخیں ہر سو، پھیل رہی ہیں فضاؤں میں
بھارت کے ظلم کی دھوپ میں وہ کشمیری قافلے پا پیادہ
ہے جن کی طلب کہ آکر بیٹھیں ، پاکستان کی چھاؤں میں
وہ بنگلہ دیشی کیمپوں میں جو روز دعائیں کرتے ہیں
اس پاکستان سے الفت کی زنجیر ہے جن کے پاؤں میں
اس مسجد اقصی کی چھت پر اور صحن میں جن کا بسیرا ہے
وہ سارے کبوتر جو محصور ہیں ، خوں آشام بلاؤں میں
تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاؤں میں

آئیے مل کر عہد کریں کہ اس عید پر کسی بچے کے آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیں گے، کسی غریب کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیں گے، تاکہ کوئی غربت کا مارا یہ نہ کہے کہ
عید آئی ہے لیکن میری کہاں ہے
میری خاموشی میری زباں ہے
کپڑے پھٹے ہیں جوتے پرانے
عید آگئی ہے مجھ کو رلانے
اللہ اس عید کو امت مسلمہ کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا دن بنائے، ظلم سے نجات اور اسلام کے بول بالے کا دن بنائے۔آمین
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

جشن آزادی کیوں منائیں ؟






اب صف ماتم اٹھا دو نوحہ خوانی چھوڑ دو
موت ہے عنوان جس کا وہ کہانی چھوڑ دو

اس بار کا یوم آزادی جن حالات میں آیا ہے ان میں جشن منانے کا خیال واقعی انسان کو مغموم کر دیتا ہے اور مایوسی کے مہیب سائے اس قدر چھا گئے ہیں کہ مختلف اطراف سے "جشن نہیں ماتم" کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔

لیکن اگر کچھ دیر جذبابیت سے نکل کر حقیقت پسندی سے سوچا جائے تو مایوسی اور اس کے نتیجے میں "ماتم" کی صدائیں بلند دور رس نقصانات کا باعث ہو سکتی ہیں۔

جشن کا مطلب ضروری نہیں کے بھنگڑے ڈالنا اور شہنائیاں بجانا ہو۔ یوم آزادی منانے کے ایک سے زائد طریقے ہیں۔ جن میں سے حالات کے مطابق کوئی بھی اپنایا جا سکتا ہے۔ اور اس کا مقصد جہاں اس آزادی کی نعمت کا شکر بجا لانا، اپنے بزرگوں کی قربانیوں کا اعتراف کرنا، آنے والی نسل میں آزادی کا احساس اور شعور بیدار کرنا ہے وہیں اس کا ایک اہم مقصد معاشرے کے ناسوروں کے‌خلاف آواز اٹھانا، اور بہتر معاشرے کی تشکیل کے لیے اس دن ایک بار پھر وہی عزم کرنا جس کے ساتھ 1947 میں مسلمان قوم اٹھی تھی اور بر صغیر کو تقسیم کر کے ایک مسلمان ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر کیا تھا۔

ماتم اور وہ بھی اس روز ۔۔۔ یہ تو اس طبقہ فکر کی فتح ہو گی جس نے روز اول سے آج تک اس اسلامی ریاست کی مخالفت کی اور نظریہ پاکستان کو کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ یہ سارے حالات انہی کے پیدا کردہ ہیں، اور اگر وہ محبان وطن سے اس روز ماتم کروانے میں کامیاب ہو گئے تو پھر ہم اپنی آنے والی نسل کو کیا شعور آزادی دیں گے؟


آزادی کا جشن منانا زندہ قوموں کا شعار ہے اور اس سے قوم کو ایک نیا جوش، ایک نیا جذبہ اور ایک ولولہ تازہ ملتا ہے۔ ہم آج جن حالات سے گزر رہے ہیں یقینا ان کی وجہ سے مایوسی اور بے یقینی پیدا ہو سکتی ہے اور ہو رہی ہے۔ اور مایوسی ایک ایسی مہلک وبا ہے جب یہ کسی قوم میں پیدا ہو جائے تو پھر ترقی کا عمل یکسر رک جاتا ہے۔ کیوں کہ آگے بڑھنے اور کچھ کر گزرنے کا جذبہ صرف اسی میں پیدا ہو سکتا ہے جس میں امید کا دیا روشن ہو، جسے بہتر مستقبل کا یقین ہو اور جسے اس بات پر بھروسہ ہو کہ میری محنت ضائع نہیں ہو گی بلکہ اس کے نتیجے میں بہتر حالات اور ترقی ملے گی۔

موجودہ حالات میں جشن آزاد کو اس کے تمام تر تقاضوں کے مطابق منانا، عوام میں آزادی کا شعور بیدار کرنا اور وطن عزیز کی ترقی، بہتری اور استحکام کے لیے عوام پاکستان کے دلوں میں ایک نیا جوش اور ولولہ پیدا کرنا وقت کی ضرورت ہے۔   اس کے لیے ارباب حکومت سے لے کر نیچے تک ہر ہر ذی شعور شہری کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔

حالات واقعی بہت ناگفتہ بہ ہیں لیکن بہتری کی امید کے ساتھ مایوسی کا خاتمہ ضروری ہے۔
اس موقع پر مکرمی اجمل انجم صاحب کی تازہ ترین نظم کے چند اشعار ضرور پیش کرنا چاہوں گا

وطن کی مٹی ۔۔۔۔۔ یقین رکھنا
کہیں جہاں میں ، خزاں کی رُت دائمی نہیں ہے
ستم کی کالی سیاہ راتیں ، طویل بھی ہوں
تو ان کا ڈھلنا
رُتیں بدلنا ۔۔۔۔۔ نسیم ِ صبح ِ بہار چلنا
یہ دین ِ فطرت ہے ، عین ِ حق ہے
یہ بالیقیں ہے
یقین رکھنا ۔۔۔۔۔ شب ِ ستم کا ، عذاب رُت کا
یہ بالیقیں دور ِ آخریں ہے
مکمل تحریر اور تبصرے >>>