Pages

ویلنٹائن ڈے : یوم محبت یا دعوت تباہی؟





چودہ فروری   کو    دنیا بھر میں یہ دن ”یوم محبت “ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ قوم، نسل اور مذہب کی قید سے بالا تر ہو کر انسانوں کی ایک بڑی تعدا د بشمول مسلمان اس کا اہتمام کرتی ہے۔ ۔ مگر بد قسمتی یہ ہے کہ اس ”یوم محبت“ کی تاریخی حقیقت سے سوائے چند ایک کے کوئی واقف نہیں۔
ویلنٹائن کی حقیقت کیا ہے؟
یہ رسم کئی صدیاں پرانی ہے۔ تاریخی اعتبار سے اس دن کی حقیقت کے بارے میں ایک سے زائد آراءہیں۔ ؒویلنٹائن“ نامی کسی شخص کی طرف منسوب تقریبا نصف درجن کہانیاں ایسی ہیں جن کو اس ”یوم محبت“ کا یوم آغاز تصور کیا جاتا ہے ۔ ان تمام روایات کو یہاں ذکرکرنا ، پھر تاریخی تحقیق کے ذریعے سچ اور جھوٹ کا فیصلہ کرنا، تاریخی شواہد کی روشنی میں کسی ایک کو اس ”یوم محبت “ کا نقطہ آغاز قرار دینا ہمارا مقصود نہیں ۔ ان بے شمار قصوں میں سے چند ایک کا ذکرکافی ہو گا جن کو پڑھ کر اندازہ ہو جائے گا کہ یہ واقعہ کس حد تک حقیقی ہے، اس کو بنیاد بنا کر ایک پورا دن اس کردار کے لئے خاص کرنا کس کہاں تک عقلمندی ہے ۔
ایک قصہ اس طرح ہے کہ رومی بت پرست تھے ۔ ان رومیوں کے ایک پوپ نے ،جس کا نام ”ویلنٹائن “ تھا ،نے بت پرستی چھوڑ کر عیسائیت قبول کر لی۔ جس کی پاداش میں اسے سزائے موت دے دی گئی۔ لیکن بعد میں جب رومیوں نے عیسائیت قبول کر لی تو انہوں نے پوپ ویلنٹائن کے یوم وفات کو ”یوم محبت “ کے طور پر منایا۔ اس طرح ویلنٹائن ڈے کا آغاز ہوا۔ اس روایت کا مبنی بر حقیقت ہونا تقریبا محال لگتا ہے۔
ایک روایت یہ بھی ہے کہ رومی فوج کو افرادی قوت کی کمی کا سامنا تھا، لوگ فوج میں بھرتی ہونے سے کتراتے تھے۔ بادشاہ نے جب محسوس کیا کہ شادی شدہ لوگ اپنے اہل و عیال کو چھوڑنے کے لئے تیار نہیں تو اس نے شادیوں پر پابندی لگا دی۔ ایک رائے یہ ہے کہ بادشاہ کا خیال تھا کہ بہادر اور جرات مند فوجی کا غیر شادی شدہ ہونا ضروری ہے۔ کیوں کہ ایسے نوجوان دیگر افکار سے آزاد ہوتے ہیں ۔ الغرض فلسفہ جو بھی تھا ، بادشاہ نے شادی پر پابندی لگا دی۔ ویلنٹائن نامی ایک پادری نے بادشاہ کے حکم کے خلاف چھپ کر شادیاں کروانا شروع کردیں، یا خود شادی کر لی۔ جس کی پاداش میں اسے سزائے موت دے کی گئی۔ اور یہ 14فروری کا دن تھا۔ بعد میں اس ویلنٹائن کی یاد میں یہ دن منایا جانے لگا۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ویلنٹائن نے ایک راہبہ سے 14فروری کو یہ کہہ کر شادی رچالی کہ میں نے خواب دیکھا ہے کہ 14فروری کا دن ایسا ہے کہ اس دن اگر راہب اور راہبہ آپس میں میلاپ کر لیں تو اسے گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ یاد رہے کہ عیسائی مذاہب میں ایک فرقے کے عقائد کے مطابق راہب اور راہبہ زندگی بھر کنوانے رہتے ہیں۔ ان کی مذہبی تعلیمات کے مطابق جو کوئی اپنے آپ کو کلیساءکی خدمت کے لئے پیش کر دے تو وہ عمر بھر شادی نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ شادی اور پھر ازدواجی زندگی کی صورت میں وہ اصلی گناہ دوبارہ ایکٹیویٹ ہو جاتا ہے جس کا ارتکاب آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے کیا تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام نے صولی پر چڑھ کر تمام انسانیت کی جانب سے اس کا کفارہ ادا کیا تھا۔
ویلنٹائن کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے راہبہ نے ہاں کر دی اور انہوں نے شادی رچا لی۔ اس جرم کی پاداش میں انہیں سزا ئے موت دے دی گئی۔ تب سے لوگ اس دن کو یوم محبت کے نام سے مناتے ہیں۔
اگر اس واقعہ کو سچ مان لیا جائے تو عقل کا تقاضا یہ ہے کہ عیسائی مذہب کے مطابق اس دن کو ”یوم مذمت “ کے طور پر منانا جاتا۔ کیوں کہ اس دن ایک مذہبی روایت کے خلاف قدم اٹھایا گیا ۔ کلیسا کے اصولوں کو پامال کیا گیا ، اور اہل کلیسا میں سے دو اہم لوگوں نے مذہبی تعلیمات کے صراحتا خلاف کام کیا ۔ لیکن اس سب کے باوجود عیسائیت کے پیروکار اس دن کو ”یوم محبت“ کے طور پر مناتے ہیں اور مذہبی پادریوں کی جانب سے کبھی اس کی مذمت نہیں کی گئی ۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اہل کلیسا کو بھی اپنی تعلیمات کے غیر فطری ہونے کا احساس ہو چکا ہے ۔
مزے کی بات یہ ہے کہ عیسائی تاریخ میں ویلنٹائن نامی تین افراد کا ذکر ملتا ہے اور تینوں کو کسی نہ کسی جرم میں موت کی سزا کا سامنا کرنا پڑا۔
حقیقت کچھ بھی ہو یہ دن عیسائی برادری کے لئے عید کی حیثیت اختیار کر گیا، جو پہلے پہل تو صرف بعض جگہوں پر منایا جاتا تھا لیکن ذرائع ابلاغ کی وسعت نے اس طرح کی کئی خبائث کو اسلامی معاشروں میں بھی پروان چڑھا دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ دن ہمارے ہاں بھی اسی اہتمام و احترام سے منایا جانے لگا۔ہماری بد قسمتی یہ ہے کہ ہم احساس کمتری کا اس قدر شکار ہو چکے ہیں کہ مغرب کی ہر روایت اپنانے کو نہ صرف قابل فخر سمجھتے ہیںبلکہ اسی تقلید کو ہر قسم کی روشن خیالی اور جدیدیت کا معیار سمجھتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل دین اور ضابطہ حیات ہونے کے ساتھ ساتھ فطری مذہب ہے۔ اس نے اپنے ماننے والوں کی تمام طبعی خواہشات کے پیش نظر ان تمام معاملات زندگی کو اپنی تعلیمات میں سمویا ہے جو تقاضائے بشری ہیں۔ لیکن ان جذبات کی تکمیل و تسکین کے لئے اسلام نے مسلمانوں کو بے لگا م نہیں چھوڑا بلکہ کچھ اصول وضع کئے ہیں۔ ان اصولوں کے مطابق کئے جانے والا ہر کام عبادت شمار ہوتا ہے ۔ اسلام خوشی اور تفریح سے ہر گز منع نہیں کرتا بلکہ صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اسی کے پیش نظر مسلمانوں کے لئے سال میں دو عیدیں رکھی ہیں۔ تا کہ مسلمان اس دن خوشی کا اظہار کر سکیں، ایک دوسرے کو تحائف دیں، دعوتیں کریں۔ اس کے علاوہ شادی بیاہ کی تقریبات یا اس طرح کے دیگر ایسے مواقع جو انسانی زندگی کا لازمہ اور معاشرے کی ضرورت ہیں ان میں بھی خوشی منانے کی پوری اجازت ہے۔
 اسلام خوشی منانے کا ہر گز مخالف نہیں۔ لیکن جو تہوار کوئی مذہبی یا تہذیبی پس منظر رکھتے ہوں۔ جس کا منایا جانا کسی مذہبی واقعے کی یاد دلاتا ہو، اس کو منانا اسلامی نقطہ نظر سے ٹھیک نہیں۔ مذہبی تہواروں کی کو منانے کا مقصد کچھ روایات ، تصورات اور عقائد کو انسانی معاشروں میں پروان چڑھانا ہوتا ہے۔ اس لئے دیگر مذاہب کے مذہبی تہوار منانا خطرے سے خالی نہیں۔
ان اسلامی ایام کے علاوہ کسی بھی ایسے دن کا منانا جس کا ہماری روایات سے تعلق نہیں علماءکے متفقہ فتویٰ کے مطابق بدعت کے زمرے میں آتا ہے۔ اور اس دن تحفے دینا اور کسی بھی سرگرمی میں شامل ہونا ”تعاون علی الاثم و العدوان“ (برائی اور زیادتی کے کام میں تعاون) کے تحت آتا ہے۔
ایک طبقہ کی رائے ہے کہ اسلام خوشی منانے سے ہر گز منع نہیں کرتا اس لئے اس دن خوشی منانے میں کوئی حرج نہیں۔ مزید یہ کہ آپ ان کے طریقے مت اپنائیں بلکہ اسلامی طریقے اپناکر اسلامی انداز میں یہ دن منا سکتے ہیں اس میں کوئی مضائقہ نہیں۔۔ افسوس ہے ان دانشوروں پر ۔ طریقہ بدلنے سے کوئی غلط کام جائز نہیں ہو جاتا۔ اگر خوشی ہی منانی ہے تو کسی اور دن کا انتخاب کر لیجئے۔ اسی دن منانا ضروری ہے؟
اس دن خوشی منانے کا مطلب ان کی مشابہت اختیار کرنا ہے، اور اسلام کی واضح تعلیمات ہیں کہ ”جس نے کسی قوم کی مشابہت کی وہ انہیں میں سے ہے“ اب ہر انسان خود فیصلہ کر سکتا ہے کہ وہ کن میں سے ہونا پسند کرتا ہے۔
یہ تو مذہبی پہلو ہے۔ معاشرتی اور اخلاقی پہلو سے یہ دن جو برائیاں ساتھ لاتا ہے وہ کوئی بھی شریف النفس قبول نہیں کر سکتا۔ مغربی اور غیر اسلامی معاشروں کا جو کلچر میڈیا کے ذریعے نوجوان نسل کو یہ دن منانے کی دعوت دیتا ہے ، وہ طریقے بھی سکھاتا ہے، اس دن کی راہ و رسم سے بھی آگاہ کرتا ہے ۔ محبت اور عشق کے خوبصورت پردوں میں جنسی بے راہ روی اس دن کا خاصہ ہے۔ بظاہر محبت کا پرچار ہے لیکن درحقیقت تباہی ہی تباہی ہے ۔ اخلاق کی تباہی، معاشرتی اقدار کی تباہی، وسائل اور اوقات کی تباہی اور بالآخر خاندانی نظام کی تباہی۔
یہ ہماری انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری ہے کہ اس برائی کو روکنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ لوگوں میں اسلامی تعلیمات کے حوالے سے آگہی پیدا کریں، اس دن اور ایسے دیگر تہواروں کی خرابیوں اور خرافات سے اپنی نوجوان نسل کو آگا کرنے کے ساتھ اسے اس دلدل میں گرنے سے بچانے کی کوشش کریں۔
بطور خاص وطن عزیز جن اخلاقی، معاشرتی، اور معاشی بحرانوں سے گزر رہا ہے وہ کسی صورت بھی اس کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ایسے تہواروں پر سرکاری طور پر پابندی لگائیں۔ تاکہ اخلاقی اور جانی نقصان کے ساتھ ساتھ ملکی وسائل کا نقصان بھی روکا جا سکے۔
اگر ہم نے ابھی آنکھیں نہ کھولیں، اپنی روایات کا پاس نہ رکھا اور مغرب کی تقلید میں مست رہے تو وہ وقت دور نہیں کہ ہم اخلاقی زوال میں مغرب سے آگے نکل جائیں۔
اپنی ملت پے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

"قادری" انقلاب تماشا: ڈور کس کے ہاتھ ہو سکتی ہے؟





یوں تو حضرت کے سارے ہی کام کسی پیچیدہ خواب کی تعبیر کے طور پر ہوتے ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ خواب میں گزارے ہوئے سالوں کی تعداد اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے (تلمذ والا خواب بطور مثال) لیکن موجودہ انقلابی جذبہ، اس کا طریقہ کار اور وقت کا انتخاب کسی خواب کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کا محرک براہ راست کوئی حکم نامہ ہے جس کے ساتھ ساتھ دنیاوی بشارتیں اور انعام و کرام بھی بیش بہا ملے ہیں۔
سب ہی یہ سوچ رہے ہیں کہ آخر یوں بیٹھے بٹھائے اچانک قادری صاحب کے دل میں پاکستان اور پاکستانیوں سے ہمدردی کے جذبات کیسے امڈ آئے؟ کیسے وہ دیکھتے ہی دیکھتے اس قدر بیتاب ہوئے کہ کینیڈا سے اٹھے اور پاکستان میں انقلاب کی آمد تک کے لیے خود کو ایک (محل نما) کنٹینر میں محصور کر دیا۔
یوں تو ہمارے ہاں ہر ہی مسئلے کا سبب امریکہ اور اسرائیل کو کہا جاتا ہے اور اب یہ ایک مزاح کی حیثیت اختیار کر گیا ہے لیکن موجودہ وقت اور حالات میں اگر ہم خطے کی صورتحال، زمینی حقائق اور واقعاتی شواہد پر غور کریں تو صاف لگتا ہے کہ عین انتخابات کے وقت میں یہ پسوڑی ڈالنا بلکہ ڈلوانا کسی خاص مقصد کے پیش نظر ہے۔ اور یہ اس کا محرک خواب نہیں بلکہ کوئی "نادیدہ قوت" ہے
اگر ہم خطے کی صورتحال دیکھیں تو اگلے سال ہمارے پڑوسی ملک افغانستان سے امریکہ بہادر اپنی تمام تر ہزیمت سمیٹتے ہوئے واپسی کے لیے رخت سفر باندھ رہا ہے جس کا اظہار وہ تسلسل کے ساتھ کر رہا ہے۔ لیکن یہ حقیقت پیش نظر رہے کہ  وہ اپنی ہزیمت تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ تاہم اہل نظر اچھے طریقے سے جانتے ہیں کہ اس کے  12 سالہ قیام کے بعد بھی افغانستان کی جو حالت ہے وہ پہلے سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔
اب امریکہ بہادر چاہتا ہے کہ وہ فاتحانہ انداز سے رخصت ہو جس کے لیے اسے خطے میں کچھ معاونین کی ضرورت ہے۔ ان معاونین میں پاکستان پہلے نمبر پر ہے اور اس کے بعد بھارت اور دیگر ہیں۔ لہذا ان معاونین سے اپنی مرضی کا تعاون حاصل کرنے کے لیے وہاں پر ہم خیال حکومتوں اور فوجی قیادتوں کا ہونا از حد ضروری ہے۔ بھارت تو امریکہ نواز ہے ہی کیوں کہ امریکہ نے اسے بہت نوازا ہے اور وہاں حکومت بدلنے کا قریب قریب کوئی امکان نہیں۔
البتہ پاکستان کی موجودہ حکومت مکمل طور پر امریکہ کے تابع ہے جس کی ناقابل تردید مثالیں ریمنڈ ڈیوس، ایبٹ آباد واقعہ اور میمو گیٹ کیس ہیں۔ تاہم فوجی قیادت کے ساتھ بھی بہت سے معاملات میں امریکہ کی ہم آہنگی چلی آ رہی ہے خاص طور پر دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ میں بہت سے اتار چڑھاؤ کے بعد اب تعلقات معمول پر ہیں۔
لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف انتخابات سر پر ہیں اور موجودہ حکومت کا جانا یقیینی ہے۔ آئندہ بننے والی کوئی بھی حکومت چاہے وہ ن لیگ کی ہو یا عمران خان کسی کے ساتھ مل کر بنا لے یا کسی اور جماعت کی ہو۔ اول تو وہ اپنی مقبولیت کوداؤ پر لگا کر امریکہ کے ساتھ ایسا کوئی کھلا تعاون نہیں کرے گا اور اگر چاہے بھی تو وہ اپنے پہلے سال میں امریکہ کے ساتھ اس طرح تعاون نہیں کر سکے گا جیسا کہ اس وقت امریکہ کو ضرورت ہو گی۔
دوسری جانب موجودہ فوجی قیادت کی مدت بھی قریب الاختتام ہے اور نئی قیادت یقینا نئی حکومت کے ساتھ مل کر نئی ترجیحات کا تعین کرے گی، نئی پالیسیاں بنائے گی اور نئے انداز سے کام کرے گی اور وہ بھی امریکہ کی باعزت واپسی میں شاید کوئی کردار ادا کرنے کے بجائے اپنی ساکھ بنانے اور افغانستان میں اپنا حصہ بنانے کے لیے کوشش کرے۔
ایسے وقت میں امریکہ بہادر کے پاس اس کے سوا کوئی اور چارہ نہیں کہ انتخابات کو ملتوی کرایا جائے، موجودہ حکومت کسی نہ کسی طرح برقرار رہے یا کوئی اور نگران حکومت ہو جو ان کی اپنی مرضی کی ہو، یا پھر ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں کہ مجبوراً فوج اقتدار پر قابض ہو جائے۔ اور یہ واضح ہے کہ فوج اگر آ گئی تو پھر کیانی صاحب کی مدت ملازمت غیر معینہ مدت تک بڑھ جائے گی۔
نیز یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ افغانستان میں ہزیمت کا سامنا صرف امریکہ کو نہیں بلکہ 40 کے قریب دیگر ممالک بھی ہیں جو اس جنگ میں براہ راست شامل ہیں اور  شکست کا بہت بڑا حصہ ان سب میں برابر تقسیم ہو گا۔ لہذا پاکستان میں ہونے والے حالیہ تماشے کے پیچھے امریکہ کے ساتھ ساتھ دیگر ممالک بھی برابر کے شریک ہو سکتے ہیں خاص طور پر کینیڈا بھی کیوں کہ اس نے بھی افغانستان کی گنگا میں اشنان کرنے کے لیے اپنے فوجی بھیج رکھے ہیں۔
شنید ہے کہ امریکی پیسہ براستہ کینڈا آئے تو اس کی اثر پذیری میں کئی گناہ اضافہ ہو جاتا ہے (مسکراتے ہوئے)
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

طاہر بھائی الطاف بھائی: پاکستان کی شامت آئی؟؟





وطن عزیز نے اپنی 65 سالہ زندگی میں جو نابغے دیکھے ہیں ان کی مثال دیگر ممالک اپنی سو سالہ تاریخ میں پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ ہر نابغہ اپنے تئیں، نجات دھندہ، انقلابی، کامیابی کا روشن استعارہ اور پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے والا ہوتا ہے۔ باقی تو اپنی اپنی توانائیاں صرف کر کے اور ملک کا بیڑہ غرق کر کے کسی نہ کسی حد تک سکون کی کیفیت میں ہیں۔
ابھی پرانی نجات دھندوں کے حب الوطنی کے جذبات کے اثرات سے عوام پاکستان نکلے ہی نہ تھے کہ انقلابیوں کی ایک اور فوج برساتی مینڈکوں کی طرح پھدکتی کودتی ایک بار پھر عوام کے سینے پر مونگ دلنے کے لیے میدان عمل میں اتر آئی ہے۔
ابھی عمران خان کے سونامی انقلاب کے تھپیڑوں میں کچھ کمی آئی تھی، کچھ جھاگ بیٹھی تھی کہ ایک اور انقلابی، جو سیاست کی بھول بھلیوں میں بے مثال ناکامیوں سے مایوس ہو کر مذہب کے میدان میں جھنڈے گاڑنے کے لیے بدیس سدھار گئے تھے ایک بار پھر انقلاب کے ہاتھوں مجبور ہو کر وطن عزیز واپس آ گئے ہیں اور دن رات عوام کے غم میں گھل رہے ہیں۔ اور طرفہ تماشا یہ ہے کہ پاکستان کے استحکام، اس کے نظام کی اصلاح اور عوام کی بہبود کے لیے اس سیاسی جماعت کو اپنا ہمسفر اور ہم نشین بنایا ہے جو تشکیل پاکستان کو اس صدی کی سب سے بڑی غلطی کہتے ہیں، جو وطن سے اس قدر محبت کرتے ہیں کہ یہاں آنے تک کی ہمت نہیں کر پاتے اور جن کے کارنامے ان کی حب الوطنی کی زندہ و جاوید مثال ہے۔
یوں تو موصوف کے معتقدین انہیں شیخ الاسلام سے کم کسی مرتبے پر رکھنے کے سرے سے روادار ہی نہیں لیکن شیخ صاحب کے کارنامے اور قصے اگر سن لیے جائیں تو بادی النظر میں ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ شاید انہیں کسی خاص مقصد کے لیے تیار کیا گیا اور اب استعمال کیا جا رہا ہے۔ حضرت کے خطبات، ان کے خواب اور بیانات سننے کے بعد ایک من چلے نے فی البدیہہ انہیں ایسا لقب دیا جو ان کی اصل حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کسی بھرپور مقالے سے زیادہ مؤثر ہے۔ اور ہو ہے "شیک الاسلام"۔ جس طرح کے کارنامے حضرت اب تک منصہ شہود پر آئے ہیں اس کے بعد شیخ کے بجائے Shake الاسلام والا لقب زیادہ جامع، زیادہ قرین قیاس اور زیادہ بہتر معلوم ہوتا ہے۔
رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئ جب اسلام کے شیخ نے قادیانیوں کے سب بے بڑے حمایتی کو اپنا دست و بازو بنا لیا اور یہاں تک فرما دیا کہ ایم کیو ایم اور ہم ایک روح دو جسم ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ تھوڑی سی شہرت اور مدد حاصل کرنے کے لیے شیک صاحب کہاں تک گر گئے۔
لیکن یہ حیرت تو ہمیں ہے، ان کے لیے تو یہ جوڑ فطری ہے کیوں کہ ایک جانب شیک الاسلام ہیں تو دوسری جانب شیک الباکستان۔ دونوں مل کر اسلام اور پاکستان کو جو حشر کرنے پر تلے ہوئے ہیں اس کا اندازہ ذی شعور حلقوں کو روز اول ہی سے ہو رہا ہے۔
ایک جملہ معترضہ کے طور پر یہ بات بھی ذکر کر دی جائے تو مفید ہو گی کہ، فصلی انقلابیوں کی قدر مشترک ہے کہ وزیر اعظم بننے کا شوق یکساں طور پر پایا جاتا ہے۔ عمران خان تو نئے انتخابات کے بعد خود کو وزیر اعظم سے کم کسی پوسٹ پر دیکھنے کے روادار نہیں لیکن شیک صاحب تو ابھی سے نگران سیٹ اپ کے لیے تیاری کر رہے ہیں اور 14 جنوری والے Shake Pakistan مارچ کا اہم ایجنڈہ بھی یہی ہے ۔
اب دیکھئے شیک الاسلام اور شیک الباکستان مل کر کیا گل کھلاتے ہیں۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

6 ستمبر یوم دفاع پاکستان اور اس کے تقاضے



قوموں اورملکوں کی تاریخ میں کچھ دن ایسے ہوتے ہیں جو عام ایام کے برعکس بڑی قربانی مانگتے ہیں۔یہ دن فرزندان وطن سے حفاظت وطن کے لئے تن من دھن کی قربانی کا تقاضا کرتے ہیں، ماؤں سے ان کے جگر گوشے اور بوڑھے باپوں سے ان کی زندگی کا آخری سہارا قربان کرنے کامطالبا کرتے ہیں۔قربانی کی لازوال داستانیں رقم ہوتی ہیں، سروں پر کفن باندھ کر سرفروشان وطن رزمگاہ حق و باطل کا رخ کرتے ہیں ،آزادی کو اپنی جان و مال پر ترجیح دے کر دیوانہ وار لڑتے ہیں، کچھ جام شہادت نوش کر کے امر ہو جاتے ہیں اور کچھ غازی بن کر سرخرو ہوتے ہیں۔ تب جا کر کہیں وطن اپنی آزادی، وقار اور علیحدہ تشخص برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔
یہ ایام فیصلہ کن ہوتے ہیں، اگر قربانی کا حق ادا نہ کیا جائے، جان و مال کو وطن پر ترجیح دی جائے، ماں کی ممتا اپنے جگر گوشے کو قربان کرنے سے گریزاں ہو، بوڑھا باپ اپنا اور خاندان کا سہارا کھونے کے لئے تیار نہ ہو تو پھر وطن اپنا وجود کھو بیٹھتے ہیں، قومیں تاریخ کا حصہ اور پارینہ قصہ بن جاتی ہیں، اور آزادی کی کے بجائے غلامی کی زندگی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔
ایسا ہی ایک دن وطن عزیز پاکستان پر بھی آیا جب بھارت نے اپنے خبث باطن سے مجبور ہو کر ستمبر 1965ءکو پاکستان پر شب خون مارا۔ بھارت کا خیال تھا کہ راتوں رات پاکستان کے اہم علاقوں پر قبضہ کر لیں گے اور ناشتے میں لاہور کے پائے کھائیں گے۔ لیکن انہیں اندازہ نہیں کہ شیر سویا ہوا ہو پھر بھی شیر ہی ہوتا ہے۔ افواج پاکستان اور عوام پاکستان نے مل کر دیوانہ وار دشمن کا مقابلہ کیا۔ سروں پر کفن باندھ کر دشمن سے بھڑ گئے، جسموں سے بارود باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹ گئے، عوام نے اپنا سب کچھ دفاع وطن کے لئے قربان کر دیا۔ اور ہندو بنیے کے ناپاک عزائم کو رزق خاک بنا دیا ۔طاقت کے نشے سے چور بھارت پاکستان کو دنیا کے نقشے سے مٹانے کے لئے آیا تھا لیکن ہمشہ کے لئے ناکامی کا بد نما داغ اپنے سینے پر سجا کر واپس گیا۔ وہ شاید اس بات سے بھی واقف نہیں کہ جو زمین شہداءکے لہو سے سیراب ہوتی ہے وہ بڑی ذرخیز اور بڑی شاداب ہوتی ہے۔ اس کے سپوت اپنی دھرتی کی طرف اٹھنے والی ہر انگلی کو توڑنے اور اس کی طرف دیکھنے والی ہر میلی آنکھ کو پھوڑنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جان وار دیتے ہیں لیکن وطن پر آنچ نہیں آنے دیتے۔ اور اس کا بہترین مظاہرہ 6ستمبر 1965ءکو کیا گیا، انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں بھی جرات و بہادری کی وہ درخشاں مثالیں قائم کی گئیں کہ تاریخ میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔
آج ہم 44واں یوم دفاع منا رہے ہیں، ہر سال کی طرح اس سال بھی وطن عزیز کے لئے دعائیں ہوں گی، سرکاری اور نجی سطح پر تقاریب کا اہتمام ہوتا ہے، افواج پاکستان پریڈ پیش کرتی ہیں ، توپوں کی سلامی سے شہداءکو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ دفاع وطن کے لئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنے کے دعوے کئے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔۔اور پھر شام ہو جاتی ہے ، جب صبح سو کر اٹھتے ہیں تو سب کچھ بھول جاتا ہے۔ ایک دن قبل کئے گئے وعدے اور دعوے بھول جاتے ہیں ۔ پھر وہی کاروبار زندگی، وہی سیاست کی سیاہ کاریاں، وہی دولت کی ہوس، وہی اقتدار کی جنگ، وہی کاسہ لیسی ، وہی غیروں کی غلامی، وہی ازلی دشمنوںسے دوستی کی پینگیں ۔۔۔ نیز ہر وہ کام جو دفاع وطن کے فلسفے کے خلاف اور جو شہداءکے مقدس خون سے غداری کے مترادف ہو، حب الوطنی کے لبادے میں کیا جاتا ہے۔
کیا اسی لئے شہداءنے اپنا خون، ماؤں نے اپنے جگر گوشے اور قوم نے اپنے سپوت قربان گاہ عشق میں وار دیئے تھے؟ کیا ہم نے اسی لئے قربانیوں کی داستانیں رقم کی تھیں کہ پھر اسی دشمن کے سامنے گھٹنے ٹیک دیں گے؟ کیا جرات و بہادری کا یہی تقاضا ہے کہ اپنا جائز حق مانگنے کے لئے بھی منتیں اور سماجتیں کی جائیں، دشمن ہمارا پانی بند کر دے، ہماری شہ رگ پر قابض ہو کر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے اور ہم مذاکرات کے لئے اپنے سارے وسائل صرف کر دیں، جس کا نتیجہ سوائے دشمن کو مزید مہلت دینے کے کچھ نہ ہو۔ ؟


اگر قیامت کے دن ان ماؤں نے ہمارا گریبان پکڑکر سوال کر لیا کہ کیا اسی لئے ہم نے اپنے بیٹے وطن کے لئے وارے تھے تو کیا جواب ہو گا۔ ؟ اگر شہیدوں نے پوچھ لیا کہ کیا ہم اسی لئے جان سے ہارے تھے تو کیا جواب ہوگا؟

آج وطن عزیز جن حالات سے دوچار وہ انتہائی تشویش ناک ہیں ۔ اندرونی اور بیرونی طور پر دشمنان پاکستان ہماری جڑیں کھوکھلی کرنے میں مصروف عمل ہیں، ایک طرف بھارت ہے جس کو چین نصیب نہیں، دوسری جانب افغان سرحد پر استعماری قوتیں اسلامی جمہوریہ کے خلاف سازشیں کرنے میں مصروف ہیں۔ اندرونی طور پر قبائلی علاقوں میں اپنی ہی فوج اپنی ہی عوام کے خلاف برسرپیکار ہے۔ بلوچستان میں ہماری اپنی کوتاہیوں کے باعث آزادی کی تحریک دن بدن زور پکڑ رہی ہے۔ خودکش حملوں کا نا ختم ہونے والا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ مہنگائی بام عروج پر پہنچ چکی ہے۔اور حکمران اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
امریکہ بہادر پاکستان کے اندر تک گھس آیا ہے، بدنام زمانہ ”بلیک واٹر “ امریکی سفارتخانے کی زیر سرپرستی مصروف ہے۔ پاکستان کی سالمیت کا ضامن ایٹمی پروگرام خطرات میں گھرتا جا رہا ہے اور ہم سوئے ہوئے ہیں۔

ان مشکل حالات میں ضروری ہو گیا ہے کہ ایک بار پھر اسی جذبے کے ساتھ دفاع وطن کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔ وہی جرات اور بہادری، وہی عزم و استقلال اور وہی جہد مسلسل ہمارا زاد راہ ہو۔ اس سے ایک طرف ہم بیرونی دشمن کا منہ توڑ جواب دینے کے لئے تقویت حاصل کریں تو دوسری جانب اندرونی مشکلات کا مقابلہ کرنے میں تحمل و برداشت کا مظاہرہ کریں۔ تاکہ ہماری طرف سے اٹھنے والا کوئی جذباتی قدم دشمن کو فائدہ نہ دے۔
آزادی بہت بڑی نعمت ہے اور نعمت قربانی مانگتی ہے۔ جتنی بڑی نعمت ہو اتنی بڑی قربانی ہوتی ہے ۔ ہمارے اسلاف نے قربانیاں دیں جس کے نتیجے میں ہم آج آزاد فضا میں جی رہے ہیں۔ دنیا کے نقشے پر ایک آزاد وطن اور آزاد قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ جیسے جیسے قربانی کا جذبہ ماند پڑتا ہے اسی طرح آزادی کا تصور بھی دھندلاتا جاتا ہے۔

بدقسمتی سے آج ہم اسی دور سے گزر رہے ہیں۔ ہم نے قربانی سے انحراف کیا تو دشمنوں نے ہر محاذ سے ہماری آزادی کو چیلنج کر دیا۔ ڈرون حملوں سے لے کر اسلام آباد میں امریکہ کے 200گھر کرائے پر لینا، بلیک واٹر کی کاروائیاں، بلوچستان میں آزادی کی تحریک، سرحد کی صورتحال اسی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔

آئیے مل کر عہد کریں کہ وطن عزیز پر کبھی آنچ نہیں آنے دیں گے۔ اپنے اپنے دائرہ کار میں رہ کر وطن عزیز کی فلاح اور دفاع کے لئے کردار ادا کریں گے۔ اور اپنے قول و فعل سے کوئی ایسا کام نہیں کریں گے جس سے وطن عزیز کی عزت پر حرف آ سکے۔

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
مکمل تحریر اور تبصرے >>>