Pages

12.01.2011

افواج پاکستان نشانہ :: امتیازی رویوں کا نتیجہ



26نومبر کو افغانستان میں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے فریضہ مقدسہ پر مامور نیٹو افواج نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی اتحادی افواج، افواج پاکستان کی چوکی پر حملہ کر کے 24 باوردی جوان شہید کر دیے۔  شہادت پانے والوں میں صرف سپاہی نہیں بلکہ میجر رینک تک کے اہلکار شامل تھے۔ 

اس واقعہ کے بعد ہمارے عسکری قائدین و ارباب اقتدار   کو جن چیزوں احساس پہلی بار ہوا اور بڑی شدت سے ہوا وہ  ملکی سلامتی، حدود کی خلاف ورزی، استحکام پر حملہ زیادہ قابل زکر ہیں۔
خلاف معمول  پاکستان نے اس کاروائی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور فوری طور پر افواج پاکستان کے سربراہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے نیٹو کی سپلائی کو معطل کرنے کا حکم دے دیا۔   حکومت نے سخت احتجاج کیا، کابینہ کے اجلاس بلائے گئے، افغانستان سے  احتجاج کیا گیا کہ ان کے زمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی ہے، دفتر خارجہ نے امریکہ سفیر کیمرون منٹر سے وضاحت طلب کی ۔ الغرض وہ سب کچھ ہوا جو ایسے موقع پر ہونا چاہیے لیکن پہلے نہیں ہوتا تھا۔

یہ واقع کیوں رونما ہوا؟ یہ دانستہ تھا یا غیر ارادی ؟  اس کے اصل محرکات اور اسباب کیا ہو سکتے ہیں اس حوالے سے ایک سے زائد آراء پائی جاتی ہیں ۔  ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ جو کہ پاکستان پر ایک عرصہ سے دباؤ ڈال رہاہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف شمالی وزیرستان میں کاروائی کریں اور دہشت گردوں کے ساتھ جو روابط ہیں انہیں ختم کریں لیکن پاکستان مسلسل روابط کی تردید اور کاروائی سے تردد کر رہا ہے۔ اور گزشتہ ماہ کابل میں طالبان کے حملے اور ربانی کے قتل کے بعد یہ تک کہا گیا کہ اگر "کاروائی نہ کی گئی تو پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور ہم خود کاروائی کا حق رکھتے ہیں"۔ ہو سکتا ہے یہ اسی قولی بیان کا عملی نمونہ ہو۔ الغرض جو بھی ہوا اور جس وجہ سے بھی ہوا انتہائی افسوس ناک ہے ۔ 

ایک اہم بات جس کی جانب اس سارے مباحثوں اور مذاکروں میں کوئی توجہ نہیں دی گئی وہ یہ ہے کہ ہمیں اس حال تک پہنچانے میں سب سے اہم اور اصل سبب ہمارا امتیازی رویہ  ہے۔ ہم مساوات کے بلند بانگ دعوں کے باوجود تفریق آدمیت  کا شکار ہیں ۔ ہم وردی والے میں اور بغیر وردی والے میں فرق کرتے ہیں۔ ہم امیر اور غریب میں فرق کرتے ہیں، ہم افسر اور نوکر میں امتیاز کرتے ہیں۔

گزشتہ دس سال سے پاکستانی عوام کو خاک و خوں میں نہلا دیا گیا، 35 ہزار کے لگ بھگ لوگ اس نام نہاد اتحاد کا ایندھن بن گئے، پاکستان کے تعلیمی اداروں سے لے کر کاروباری مراز اور تو اور مساجد تک غیر محفوظ ہو گئیں۔ یہاں تک  عوامی حفاظت پر مامور ادارے بھی بلند و بالا قلعوں میں محصور ہو کر رہ گئے لیکن نہ ہمارے ارباب اختیار پر اور نہ عسکری قائدین کے کان پر کوئی جوں تک رینگی ۔  روز ڈرون حملے ہوتے رہے اور اپنی ہی سرزمین سے ہوتے رہے لیکن ہم نے مجرمانہ خاموشی سادھے رکھی۔ 

اب جب باوردی لوگ صرف 24 کی تعداد میں اس "دہشت گردی" کا شکار ہوئے تو عسکری قیادت سے لے کر ایوان اقتدار تک سب ہی تلملا اٹھے، ملکی سلامتی، سرحدوں کا تحفظ، خود مختاری، اور نہ جانے کون کون سی چیزیں پہلی بار انہیں خطرے میں محسوس ہوئیں۔ نیٹو سپلائی بند، بون کانفرنس میں شرکت سے معذرت اور ایئر بیسسز خالی کرنے کا فوری حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ 

اگر روز اول سے ہی پاکستان کے ارباب اقتدار ہر شہری کو یکساں تصور کرتے اور ایک عام فرد کی ہلاکت پر اس طرح  رد عمل کا اظہار کرتی۔ سرحدوں کی خلاف ورزی کو پہلے دن سے ہی ملکی سالمیت اور خود مختاری  پر حملہ تصور کرتی اور ملکی وقار کو وہی اہمیت دیتی جو 24فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد سامنے آیا ہے تو نہ ریمنڈ ڈیوس آتے، نہ سانحہ ایبٹ آباد پیش آتا اور نہ سلالہ چیک پوسٹ پر ہم اپنے قیمتی 24 جوان یوں ضائع کرتے۔ ہمارے اس دوغلے رویے نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے کہ جب کسی کا دل چاہا چڑھ دوڑا ۔ 

اب بھی وقت ہے کہ اگر ہم ہر شہری کو یکساں اہمیت دیں اور ہر طرح کی بیرونی مداخلت پر ایسا ہی جرات مندانہ رد عمل ظاہر کریں تو ہم اپنا کھویا ہوا وقار، تباہ شدہ امن اور روٹھی ہوئی خوشیاں واپس لا سکتے ہیں ۔  

2 comments:

Anonymous نے لکھا ہے

سیاست پر کیا گفتگو کروں جسے میں نا پسند کرتی ہوں

December 2, 2011 at 7:54 AM
sfahad10 نے لکھا ہے

یہ ڈرے ہوئے لوگ ہیں ۔
اگر انہوں نے چاہتے ہوئے یا نہ چاہتے ہوئے امریکہ کے خلاف کچھ قدم اٹھائے ہیں تو ہمیں چاہیئے کہ ان کی حمایت کریں ۔تاکہ یہ اپنی بات ڈٹے رہیں۔

اگر ہم لوگ ہی ان کی مخالفت کریں گے ۔تو کوئی بعید نہیں کہ یہ اپنی بات پھر جائیں۔

اس وجہ سے انہیں حوصلہ دئے رکھو ۔

December 10, 2011 at 12:22 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔