Pages

6.12.2012

میمو کیس کا فیصلہ : حکومت کا ایک اور امتحان





28 نومبر 2011ء کو سماعت کے لیے منظور کیے جانے والے میمو کیس کا فیصلہ سنا دیا گیا جس میں یہ بات سامنے آئی کہ میمو ایک حقیقت ہے اور اس کا خالق حسین حقانی ہے۔ اس  میں فریقوں کی ایک لمبی فہرست ہے جس میں پاکستان کے اعلیٰ ترین ادارے اور  اداروں کے سربراہان شامل ہیں جن میں  وفاق، صدر پاکستان، بری افواج کے سربراہ، آئی ایس آئی کے سابق سربراہ شجاع پاشا، امریکہ کے لیے پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی اور پاکستان نژاد امریکی شہری  منصور اعجاز قابل ذکر ہیں۔  سوائے پی پی اور اس کے چند  چہیتوں اور چاہنے والوں کے سب ہی اس میمو کی حقیقت کے قائل تھے۔ آرمی چیف اور آئی ایس آئی کے سربراہ اپنے حلفیہ بیان میں اس کے حقیقی ہونے کا اظہار کر چکے تھے ۔ 

اگرچہ فیصلے میں اس میمو کا خالق حسین حقانی کو قرار دیا گیا ہے لیکن ایک سوال ابھرتا ہے کہ کیا حسین حقانی موجودہ حکومت اور بطور خاص صدر آصف علی زرداری کے مرضی یا حکم کے بغیر اس طرح کا کوئی اقدام اٹھا سکتے ہیں؟ ایک معمولی فہم کا مالک انسان بھی اس کا جواب نفی میں دے گا۔

پی پی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے پی پی کے اس جیالے نے فیصلہ آنے کے بعد کہہ دیا کہ کمیشن جانبدار تھا۔   سوال یہ ہے کہ یہ جانبداری اب آشکار ہوئی ہے  یا پہلے سے موصوف اس کا علم رکھتے تھے؟ اگر پہلے سے علم تھا تو پھر راز و نیاز کے بجائے اظہار کو بہتر کیوں نہ سمجھا گیا؟ 

اگر آرمی چیف، آئی ایس آئی کے سابق ڈی جی کے حلفیہ بیانات  اور سپریم کورٹ کے لارجر بینچ کے حالیہ فیصلے سے ہٹ کر دیکھا جائے  تو پی پی اور اس کے جیالوں کا  رد عمل اس میمو کی حقیقت کو آشکار کرنے کے لیے کافی ہے۔   بطور خاص منصور اعجاز کو پاکستان آنے سے روکنے کے لیے حکومت وقت اور بالخصوص سابق وزیر داخلہ اور حالیہ مشیر داخلہ رحمٰن ملک کا  کردار صاف ظاہر کرتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ہی نہیں بلکہ  ساری ہی دال کالی ہے۔ 

اس کے بعد دوسرا اہم واقعہ جو حسین حقانی کے مجرم ہونے کی مزید توثیق کرتا ہے  وہ اس کا وعدے کے مطابق واپس نہ آنا ہے۔ حسین حقانی کو اس شرط پر بیرون ملک جانے کی اجازت دی گئی تھی کہ وہ  عدالت کے نوٹس پر چار دن  میں  عدالت کے روبرا پیش ہونے کے پابند ہوں گے۔ جبکہ صورتحال یہ ہے کہ بارہا نوٹس ملیا پر "ککھ نہ ہلیا"۔ لیکن شاید حقانی صاحب کو    پی پی پی کی تاریخ کا ایک اہم کردار بابر اعوان یاد نہیں ۔ یہ تاریخی روایت بتاتی ہے کہ جس کا "ککھ" نہیں ہلتا وہ پورا کا پورا ہل جاتا ہے۔ 

پاکستان پیپلز پارٹی  کا رویہ یہ رہا ہے کہ  روزانہ عدلیہ کے احترام کے دعوے کرتی ہے اور عملا ہمیشہ اس کے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتی ہے ۔ اس کی بہترین مثالیں این آر او کا فیصلہ، سوئس عدالتوں کو خطوط کا معاملہ، وزیر اعظم کے خلاف توہین عدالت  کا فیصلہ اور رحمٰن ملک کی نا اہلیت کا فیصلہ ہیں جن میں حکومت نےصراحتاً عدلیہ کے فیصلے کی مخالفت کی۔  اب دیکھنا یہ ہے کہ اس فیصلے کے حوالے سے ان کی پیش رفت کیا ہو گی۔  کیا اپنے روایتی رویے کو برقرار رکھے گی یا  اپنے اس جیالے کی قربانی  دے کر سرخرو ہونے کی کوشش کرے گی۔

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔