Pages

8.17.2012

اب کے عید کیسے منائیں؟

 
 
عید کا سماں ہے ، ہر انسان شاداں و فرحاں ہے ، بچے اجلے لباس پہنے اپنے ہم جولیوں کے ساتھ کھیل کود میں مگن ہیں ، ایک بچہ افلاس و یاس کی تصویر بنے آبدیدہ نگاہوں سے حسرت کے ساتھ بچوں کو کھیلتے اور خوش ہوتے دیکھ رہا ہے ۔
ایک انتہائی شفقت بھری آواز پر بچہ چونک گیا ۔ بیٹا آپ نے نئے کپڑکیوں نہیں پہنے؟ یہ سوال سن کر بچے کی آنکھوں میں آنسو تیز ہو گئے ، کہنے لگا مجھے میرے حال پر چھوڑ دیجئے ۔ اصرار پر کہنے لگا کہ میرے والدین نہیں ہیں، کون مجھے نہلا دھلا کر تیار کرے گا، کون میرے لئے نئے کپڑے لائے گا؟۔ یہ سن کر سوال کرنے والا آبدیدہ ہو گیا، پیار سے پوچھا۔ کیا تم یہ نہ چاہو گے کہ میں تمہارا باپ بن جاؤں، فاطمہ تمہاری بہن ہو، علی تمہارے چچا ہوں، اور حسن اور حسین تمہارے بھائی (رضوان اللہ علیہم اجمعین)۔بچا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان گیا۔آپ اسے ساتھ لے گئے، نہلا دھلا کر نئے کپڑے پہنائے ، یہ سب دیکھ کر بچے کی چہرے پر بھی بشاشت آ گئی، اک حوصلہ ملا کہ اس کا بھی کوئی ہے۔ بچہ گیا اور دوسرے بچوں میں گھل مل گیا۔
یہ ایک چھوٹا سا واقعہ اپنے اندر خوشی کے سب سے بڑے موقع کے حوالے سے ہمارے لئے مشعل را ہ ہے۔ رحمت کائنات، فخر موجودات سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں درس دیا کہ”عید صرف خوش ہونے کا ہی نہیں بلکہ خوش کرنے کا نام ہے، اور اصلی خوشی وہی ہے جو دوسرے کے چہرے پر سجائی جائے“۔

عید کیا ہے؟ ایک تہوار ، خوشی کا تہوار ۔ خوشی کا تہوار وہ قدر مشترک ہے جو ہر قوم اور مذہب میں پائی جاتی ہے،اور ہر قوم کے کچھ دن اور مواقع ایسے ہیں جن میں وہ خوشی مناتے ہیں، انداز اپنے اپنے مذہب، تہذیب اور روایات کے مطابق ہوتے ہیں۔
اسلام ایک مکمل اور فطری دین ہے ،فطرت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے اس نے بھی اپنے پیرو کاروں کے لئے خوشی اورغم کے حوالے سے نہ صرف تعلیمات دی ہیں بلکہ خوشی اور تفریح کے مواقع بھی مہیا کیے ہیں ۔ اسلام صحت مند تفریح کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ اس لئے دیگر اقوام کے مقابلے میں ہماری خوشیاں منانے کا انداز بھی ذرا مختلف ہوتا ہے۔
عہد رسالت میں دیکھیں تو عید کے دن مسجد نبوی کے صحن میں نیزہ بازی کے مقابلے ہو رہے ہیں، مختلف فن کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا فرماتی ہیں کہ میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے کندھے پر ٹھوڑی رکھ کر دیکھتی رہتی ۔۔
نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کی تفریح کا بھی خیال رکھنا ہمارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کا عمل ہے اور اس میں ہمارے لئے تعلیمات ہیں ۔
اگر ہم اپنے حالات کا جائزہ لیں، اپنے خوشی منانے کے طریقے کو دیکھیں تو احساس ہوتا ہے کہ ہم نے اپنی اقدار کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ صحت مند تفریح کے بجائے اغیار کی تقلید میں اس طرح کی محافل کا اہتمام کیا جاتا ہے جس میں بیہودگی اور فحاشی کے تمام مظاہر خوشی کے نام پر سجائے جاتے ہیں۔
صحت مند تفریح کے بجائے مضر صحت و اخلاق سرگرمیاں سر عام کی جاتی ہیں، سینما گھروں میں رونق اور بوڑھے والدین گھروں پر اکیلے۔ اپنے بچوں کے سوا کسی کے بچوں کا کوئی احساس نہیں، افلاس زدہ بچوں کو اپنے ساتھ گھر لا کر نئے کپڑے پہنانا تو کجا انہیں اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دیتے، کپڑے خراب ہو جائیں گے، جراثیم لگ جائیں گے۔

بلا شبہ عید ایک خوشی کا موقع ہے اور ہمیں خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ روزہ بھی منع کردیا گیا ہے اور فرمایا کہ ”یہ کھانے پینے اور خوش ہونے کے دن ہیں“۔
لیکن اگر ایک نظر ہم امت مسلمہ کی حالت پر دوڑائیں تو کیا اس کے بعد بھی ہمیں یہ حق پہنچتا ہے کہ ہم پھلجھڑیاں اڑائیں، قہقہے لگائیں، شادیانے بجائیں، سویاں کھائیں، فلمیں دیکھیں اور ناچیں گائیں؟ کیا ہم اتنے بے حس ہو گئے ہیں کہ ہمیں اپنوں کا احساس ہے نہ وعدوں کا پاس؟ کیا نبوی طریقہ خوشی ہمارے لئے قابل عمل نہیں، کیا ہمیں یہ نہیں سکھایا گیا کہ خوش ہونا ہی نہیں بلکہ خوش کرنا بھی ہے۔
اگر ہم سمجھتے ہیں کہ ہم مجبور ہیں، لاچار ہیں، بے بس ہیں، ظالم طاقتور ہے، ہم اپنے بھائیوں کے لئے ، اپنی بہنوں کے لئے اپنی ماؤں اور بیٹیوں کے لئے کچھ نہیں کر سکتے ۔ انہیں پنجہ ظلم سے آزادی نہیں دلا سکتے تو کم از کم اس عید کے موقع پر ان مظلوموں کے لئے چند گھڑیاں مختص تو کر سکتے ہیں، جن میں ہم بارگاہ رب العزت میں دست دعا دراز کریں ، کہ اللہ انہیں ظلم سے نجات دلائے، اللہ ظلم کی کمر توڑ دے۔ اللہ تعالی افغانستان، کشمیر، فلسطین، اور دنیا میں جہاں جہاں بھی مسلمان مظلوم ہیں ان کو ظلم سے نجات دے، ظلم کی سیاہ رات چھٹ جائے اور آزادی کا نور ان پر سایہ فگن ہو
عید کا دن اہل پاکستان سے درخواست کرتا ہوا نظر آتا ہے کہ
افلاس ہے رقص کناں جن کی ٹوٹی پھوٹی کٹیاوں میں
تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاوؤں میں
وہ افغانی کہساروں میں جن کے ماں باپ شہید ہوئے
ان معصوموں کی چیخیں ہر سو، پھیل رہی ہیں فضاؤں میں
بھارت کے ظلم کی دھوپ میں وہ کشمیری قافلے پا پیادہ
ہے جن کی طلب کہ آکر بیٹھیں ، پاکستان کی چھاؤں میں
وہ بنگلہ دیشی کیمپوں میں جو روز دعائیں کرتے ہیں
اس پاکستان سے الفت کی زنجیر ہے جن کے پاؤں میں
اس مسجد اقصی کی چھت پر اور صحن میں جن کا بسیرا ہے
وہ سارے کبوتر جو محصور ہیں ، خوں آشام بلاؤں میں
تم اپنی عید منا کر ان کو بھول نہ جانا دعاؤں میں

آئیے مل کر عہد کریں کہ اس عید پر کسی بچے کے آنکھوں میں آنسو نہیں آنے دیں گے، کسی غریب کو تنہائی کا احساس نہیں ہونے دیں گے، تاکہ کوئی غربت کا مارا یہ نہ کہے کہ
عید آئی ہے لیکن میری کہاں ہے
میری خاموشی میری زباں ہے
کپڑے پھٹے ہیں جوتے پرانے
عید آگئی ہے مجھ کو رلانے
اللہ اس عید کو امت مسلمہ کے لئے خوشیوں اور مسرتوں کا دن بنائے، ظلم سے نجات اور اسلام کے بول بالے کا دن بنائے۔آمین

1 comments:

دریچہ دل نے لکھا ہے

آمین
یہ شالامار میں اک برگِ زرد کہتا تھا
گیا وہ موسم۔ گل جس کا راز دار ہوں میں
نہ پائمال کریں مجھ کو زائرانِ چمن
انھیں کی شاخِ نشیمن کی یاد گار ہوں میں
ذرا سے پتّے نے بیتاب کرد یا دل کو
چمن میں آ کے سراپا غمِ بہار ہوں میں
خزاں میں مجھکو رلاتی ہے یادِ فصلِ بہار
خوشی ہو عید کی کیونکر کہ سوگوار ہوں میں
اجاڑ ہوگئے عہدِ کہن کے میخانے
گذ شتہ بادہ پرستوں کی یاد گار ہوں میں
پیامِ عیش و مسرّت ہمیں سنا تا ہے
ہلالِ عید ہماری ہنسی اڑاتا ہے

August 18, 2012 at 1:47 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔