Pages

9.08.2014

موسم انکشافات: تخریب میں مضمر تعمیر کا پہلو





پاکستانی سیاسیت بلا شبہ نازک دور سے گزر رہی ہے۔ وطن عزیز جمہوریت اور آمریت کے سنگم پر کھڑا ہے، اک قدم آگے گیا تو جمہوریت، پیچھے ہٹا تو آمریت اور یہیں کھڑ ا رہا تو موسم انکشافات و الزامات جو واضح طور پر سیاست کے خد و خال پر اثر انداز ہو گا۔ حالات کا تناؤ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ مخالف تو رہے ایک طرف، ایک ہی صف میں کھڑے لوگ باہم دست و گریباں ہونے کو ہیں۔ مخالفین پر الزام لگانے اور ان کے کچے چٹھے کھولنے کے بجائے اپنے ہی ہم خیال و ہم رقاب لوگوں کو بے نقاب کرنے کی ظالم رسم چل پڑی ہے۔
 
پہلے جاوید ہاشمی نے اپنے ہی قائد اور تحریک انصاف کے چیئرمین کو بے نقاب کیا اور اس کے مزعومہ انقلاب کی قلعی کھول دی۔ ابھی اس کایا پلٹ کا اثر پوری طرح زائل نہ ہوا تھا کہ اسی جماعت کا ایک اور اہم رہنما شاہ محمود قریشی اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں سر عام بے نقاب ہو گیا۔ شاہ صاحب نے یقینا الطاف حسین حالی کا یہ مصرعہ گنگنایا ہو گا کہ "دوست یاں تھوڑے ہیں اور بھائی بہت"۔ حسن اتفاق دیکھیے جس مارچ اور دھرنے کے پیچھے وردی کی کارفرمائی کی پیش گوئیاں گردش کر رہی ہیں سارے انکشافات انہیں افواہوں  کو تقویت دیتے معلوم ہوتے ہیں۔ طویل دھرنا اور مارچ  جس مقام پر کھڑا ہے یہاں ایسے دھچکے یقینا جان لیوا ثابت ہو سکتے ہیں لیکن عمران خان اور تحریک انصاف ان کو بانداز احسن سہار گئے۔ حالات ایسے دوراہے پر کھڑے ہیں اور تناؤاس قدر ہے کہ نہ عمران نے ہتک عزت کا دعویٰ کیا اور نہ حکومت کی جانب سے ان معاملات کی تحقیق کے مسئلے کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی کیوں کہ اس وقت دونوں ہی جانب جنگی صورتحال نافذ ہے۔

اس میں شک نہیں کہ اس صورتحال سے حکومت اور موجودہ جمہوریت کو بچانے کی خاطر جمع ہونے والا اتحاد بجا طور پر محظوظ ہو رہا تھا لیکن کہتے ہیں کہ "دشمن مرے تے خوشی نہ کرییے سجناں وی مرجاناں"۔
حکومت اور اس کے جمہوریت بچاؤ اتحادیوں کی خوشی کا مزہ اس وقت کرکرا ہو گیا جب موسم انکشافات و الزمات نے یہاں بھی اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا۔ جمہوریت بچانے کی خاطر ساری جماعتیں(99 فیصد) متحد تھیں اور معاملات حسن اسلوبی سے آگے بڑھ رہے تھے کہ چوہدری نثار کو نہ جانے کیا سوجھی کہ اپنی توپوں کا رخ مارچیوں کے بجائے اپنے اتحادیوں کی جانب موڑ کر اندھا دھند فائرنگ شروع کر دی جس کا براہ راست نشانہ ایوان بالا میں پی پی کے قائد ایوان معروف قانون دان اعتزاز احسن بنے۔ حکومت کے لیے اور بالخصوص نواز شریف کے لیے یہ صورتحال انتہائی تشویش کا باعث ہے اسی لیے ان کی جانب سے معافی اور معذرت کا عمل مسلسل جاری ہے جس میں ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف بھی برابر حصہ ڈال رہے ہیں لیکن چوہدری نثار کی جانب سے بیان واپس لینے یا وضاحت کرنے کی کوئی خبر تا حال احقر کی نظر سے نہیں گزری۔
یہ کیسے ہو سکتا تھا کہ چوہدری نثار پوری غزل سنا دیں اور چوہدری اعتزاز احسن بردباری سے اسے برداشت کر جائیں اور اپنا کلام پیش نہ کریں۔ دو دن بعد انہوں نے بھی جواب آں غزل پیش کر کے محفل کو کشت و زعفران بنا دیا ۔کلام نرم و نازک کے عادی نے اپنی روایت سے ہٹ کر جارحانہ انداز سے بیٹنگ کی۔

ایسے وقت میں جب حکومت کے لیے اپنی بقا اور نواز شریف کے لیے اپنی وزارت عظمیٰ سب سے اہم بلکہ عزت کا مسئلہ بنا ہوا ہے اور اس کو بچانے کے لیے ایک ایک جماعت کا تعاون انتہائی اہم ہے ایسے میں چوہدری نثار کی جانب سے اس پیش رفت نے سب کو انگشت بدنداں کر دیا ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چوہدی نثا ر کا اپنے بیان پر ڈٹے رہنا اور میاں برادران کا مسلسل معافی پر معافی مانگے چلے جانا اس بات کا غماز ہے کہ مسئلہ سنجیدہ اور پیچیدہ ہے۔ یہ صورتحال جہاں ایک جانب بہت سے شکوک و شبہات کو جنم دیتی ہے وہیں اس میں عمران اور اس کے ہمنواؤں کے لیے تسکین کا سامان بھی ہے۔ یہ صورتحال دیکھ کر خیال آتا ہے کہ سیاست بڑی بے رحم چیز ہے جس میں عزت سادات رہتی ہے نہ شریفوں کی دستار۔

حالات کے اس تناؤ، الزام تراشی، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش سے اگرچہ ملک اور عوام کا بے حد نقصان ہوا ہے، لیکن اس تخریب میں ایک پہلو تعمیر کا بھی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ الزام تراشی اور ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کا کام پاکستانی سیاست میں کوئی نئی روایت یا انہونی بات نہیں لیکن جس طرح کے حالات گزشتہ نصف ماہ سے چل رہے ہیں، تناؤ اور بے یقینی کی جو کیفیت ہے، عوام جس کرب و اذیت سے گزر رہی ہے اور پھر ذرائع ابلاغ جس طرح پل پل بدلتے حالات اور چہروں سے اترتے نقاب عوام کو دکھا رہے ہیں، سوشل میڈیا نے جس طرح اظہار ما فی الضمیر کی کھلی آزدی فراہم کی ہے ایسے وقت میں سیاست دانوں کا یوں باہم دست و گریبان ہونا، ملکی مفاد پر ذاتی مفاد اور انا کو ترجیح دینا، اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کے لیے ملکی سالمیت اور استحکام کو داؤ پر لگانا یقینا عوام کی آنکھیں کھولنے کے لیے کافی ہو گا۔

ذرائع ابلاغ اور سوشل میڈیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے اذہان واضح ہو رہے ہیں، دھند چھٹ رہی ہے، پرانی سیاسی جماعتوں کے کارکنان اور جیالے اپنے قائدین سے متنفر ہو رہے ہیں اور نئے اور مخلص قائدین کی تلاش میں ہیں۔ نہ صرف روایتی سیاسی جماعتوں کے کارکنان بلکہ نئی ابھرنے والی تحریک انصاف کی موجودہ حکمت عملی نے اس کے اپنے کارکنان کو بھی شدید مایوس کیا ہے۔ ہو سکتا ہے جو کام انقلاب اور دھرنے سے نہیں ہوا وہ اہل سیاست کی حرکتیں کر دکھائیں، عوام کی آنکھیں کھل جائیں، اور وہ تبدیلی اور انقلابی شعور بیدار ہو جس کا پاکستان اور عوام پاکستان کو برسوں سے انتظار ہے۔عین ممکن ہے کہ اس تخریب  میں مضمر ہو ایک صورت بھلائی کی۔

2 comments:

افتخار اجمل بھوپال نے لکھا ہے

آپ نے درست لکھا ہے اور یہ بھی درست ہے کہ اس سے قوم و مُلک کا بہت نقصان ہوا ہے ۔ میں آپ کی اس خواہش کے بھی ساتھ ہوں کہ اللہ کرے اس سارے بحران میں سے ایک اچھی قوم یا اچھی سیاست اُبھر آئے ۔
میں نے بھی چوہدری نثار اور اعتزاز احس نوک جھونک میں چوہدری نثار کو ہی موردِ الزام ٹھہرایا تھا اور دو دن تک اُسے بُرا کہتا رہا ۔ خاص کر اسلئے کہ میں چوہدری نثار کو تھوڑا تھوڑا جانتا ہوں اور مجھے اس سے ایسی حرکت کی توقع نہ تھی ۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اعتزاز احس نے شروع کیا تھا جس کا جواب چوہدری نثار نے دیا تو اعتزاز احسن معاملہ پارلیمنٹ میں لے گیا اور جو کچھ پارلیمنٹ میں ہوا اور جیسا وہاں اعتزاز احسن کا رویّہ تھا وہ آپ نے دیکھا ہی ہو گا ۔ اعتزاز احسن نے پارلیمنٹ سے باہر چوہدری نثار پر الزامات اور بہتانات لگائے تھے ۔ یہ بھی ایک سازش تھی کہ ذرائع ابلاغ نے اعتزاز احسن کی پریس کانفرنس گول کر دی اور چوہدی نثار کے جواب کو خُوب اُچھالا

September 10, 2014 at 6:06 AM
Unknown نے لکھا ہے

یہ درست ہے کہ اس معاملے میں چوہدری نثار کو زیادہ آڑے ہاتھوں لیا گیا جس کے پیچھے کچھ نہ کچھ شرارت کارفرما نظر آتی ہے۔ لیکن بھلا ہو چوہدری نثار کا جو خاموش ہو گئے ورنہ ابھی نہ جانے اور کتنا کیچڑ اچھلتا

September 12, 2014 at 10:28 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔