Pages

نیا سال: نئی فکر اور نئی امید




دنیا میں مختلف قومیں مختلف ایام مختلف حوالوں سے مناتی آئی ہیں ۔ ان ایام کے پیچھے کوئی  تاریخی ورثہ یا کوئی ایسا تاریخی واقعہ ہوتا ہے جس کی یاد  منانے  یا کسی تاریخی انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ دن منائے جاتے ہیں۔ انسانی زندگی جب ترقی کے مراحل اور منازل طے کرتی آگے بڑھنے لگتی اور  مختلف اقوام نے فتوحات کے ذریعے دیگر اقوام کے علاقوں پر قبضہ کیا تو  مختلف قبائل اور اقوام کو مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران جہاں اور بہت سی عادات اور رسم و رواج منتقل ہوئے وہیں مختلف تہوار بھی منتقل ہوئے۔ان تہواروں میں سے بعض ایسے تھے جو کہ خاص مذہبی رنگ میں منائے جاتے تھے۔ اور کچھ ایسے تھے جو کسی علاقے کے ساتھ خاص تھے جن  میں کسی مذہبی تعلیم کا  عمل دخل نہیں تھا۔

دیگر کئی تہواروں کی طرح نئے سال کی پہلی رات یا نیو ایر نائٹ  New Year Night کو بھی ایک تہوار کا درجہ حاصل ہو گیا ہے اور یہ بھی ایک عرصہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں بڑے زورو شور سے منائی جاتی ہے۔اس کا آغاز انیسویں صدی میں برٹش رائل نیوی کے ایک جہاز سے ہوا اور خشکی میں سب سے پہلے ء1910 میں ایک ساحلی شہر اینا ڈین میں منایا گیا۔ 1980ء تک تو یہ لعنت یورپ تک ہی محدود تھی لیکن اس کے بعد یہ مرض وبا کی طرح پھیلا اور پوری دنیا کوبشمول بر صغیر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
وطن عزیز پاکستان میں پہلی بار 90کی دہائی میں اس تقریب کا آغاز ہوا ۔ کیوں کہ انگریز برصغیر سے چلا تو گیا لیکن جاتے جاتے ایسے انڈے بچے دے گیا جو اندھی تقلید میں اپنے اکابر سے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں۔ پہلے پہل یہ صرف بڑے لوگوں کا شوق ہوا کر تا تھا لیکن اب سر عام اس رات کو منایا جاتا ہے۔ اربوں روپے کے جام چھلکائے جاتے ہیں، کروڑوں کی بجلی اور گیس ضائع کی جاتی ہے، انواع و اقسام کے کھانوں پر لاکھوں روپے لگا دیئے جاتے ہیں۔ سیکڑوں خواتین اپنی چادر عصمت تارتار کرواتی ہیں ، کیوں کہ عموما ایسی پارٹیوں میں سنگلز کی انٹری ممنوع ہوتی ہے۔

دو روز بعد ایک بار پھر نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے اور یقینا ایک بڑی تعداد اس رات کو اسی طرح منانے کے لیے بے چین و بیتاب ہوں گے۔  نہ صرف عوام بلکہ بہت سے حکومتی اہلکار بھی پر تول رہے ہوں گے۔ لیکن اس بار وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں وقت کا تقاضا یہی ہے کہ  حکومت کو اس قسم کی تمام تقریبات پر سختی سے پابندی لگا دینی چاہیئے۔ کیوں کہ ملک ویسے بھی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اربوں ڈالرز کے قرضے لیے جا رہے ہیں ۔ بجلی اور گیس نایاب ہو چکی ہے، بے روزگاری اور افراط زر کی بدترین صورتحال ہے ۔ ان حالات میں اس طرح کے کسی کام کی اجازت دینا بجائے خود حکومت کے عقل و شعور پر ایک سوالیہ نشان ہو گا ۔  اگر ان بے حیائی کے کاموں میں صرف ہونے والا پیسا بچا کر کسی مثبت کام میں صرف کیا جائے تو کئی لوگ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
خاص طور پر خادم اعلی جناب شہباز شریف صاحب کو اس پر خصوصی توجہ د ینی چاہیئے تاکہ وطن اور اہل وطن دونوں کے لئے بہتری ہو کیوں کہ اس قسم کے کاموں کے لئے داتا کی نگری ۔لاہور ۔ بہت مشہور ہے ۔ لہذا وہاں ہونے والی ہر ایسی سرگرمی کے ذمہ دار وہ براہ راست ہوں گے کیوں کہ یہ ان کی مسئولیت میں آتا ہے۔

اسلام خوشی منانے کے بالکل منافی نہیں ہے بلکہ صحت مند تفریخ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ لیکن جس تفریح میں مال کے  اسراف کے ساتھ ساتھ جان کے ضیاع کا بھی خطرہ ہو ، معاشرے کی اخلاقی اقدار تباہ ہوتی ہوں، طبلے کی تھاپ پر جوانیاں ناچتی ہوں اور ہوس کے متلاشی ابن آدم مال و زر کے زور پر بنت حوا کی چادر عصمت تار تار کرنے پر تلے ہوں وہاں اسلام حکومت کو پابند کرتا ہے کہ اس کام کو روکے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے۔ تاکہ معاشرہ بہتر انسانی اقدار کی روشنی میں ترقی کرتا رہے۔
اسلامی تہذیب کی بذات خود ایک مکمل اور جامع تہذیب ہے۔ اس میں جہاں انسان کی دیگر فطری خواہشات و ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے وہیں خوشی کو منانے کے لئے ایسے تہوار بھی مقرر کر دئیے گئے ہیں جن میں انسان اپنی خوشی کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن ایک خصوصیت جو صرف اسلام کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی حالت میں ہوں، خوشی یا غمی، حد سے زیاتی کو برا جانا گیا ہے۔

ہر مسلمان کو خود اس موضوع پر سوچنا چاہیئے کہ اس مختصر زندگی  کا ایک اور سال بیت گیا، موت ایک سال مزید قریب آ گئی ۔ کیا یہ وقت رقص و سرود کی محفلیں سجانے، ناچنے اور بھنگڑے ڈالنے کا ہے یا یہ رات اپنے رب کے سامنے سر جھکا کر گزشتہ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنے اور آئندہ کے لیے راہ راست پر چلنے کی توفیق مانگنے کا ہے۔
بطور پاکستانی بھی ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے گزشتہ سال ملک و ملت کے لیے کون سا ایسا کام کیا جس سے بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہو۔ اگر نہیں کیا تو آئندہ کے لیے غور و فکر کریں اور ایسی منصوبہ بندہ کریں جو ہمارے لیے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی مفید ہو۔  گزشتہ سال میں حالات و واقعات کی وجہ سے جو مایوسیاں پیدا ہوئی ہیں انہیں ختم کرنے اور امید کے دیے روشن کرنے کے لیے مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس لیے مل کر سوچنا ہو گا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے کون سی ایسی  حکمت عملی  ہو گی بہتر نتائج لا سکتی ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اسلام : حقوق نسواں کا سب سے بڑا محافظ



بعد از حمد و ثنا۔
افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے اقوام وجود میں آتی ہیں ۔ اقوام کی پر سکون زندگی اور پرامن بقا کے لئے انصاف اولین شرط ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر بقائے باہمی نا صرف مشکل بلکہ ناممکن بن جاتی ہے۔ معاشرہ کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے افراد کے کچھ حقوق مقرر کر دیئے گئے ہیں جن کی پاسداری سے پر امن فضا کا قیام ممکن ہے۔ ایک عرصہ تک ان حقوق کو بنیادی حقوق یا فطری حقوق کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسانی تمدن ترقی پذیر ہوتا رہا اور نئے نئے نقطہائے  نظر اور اصطلاحات کا ظہور ہوا تو بنیادی یا فطری حقوق "انسانی حقوق" کی اصطلاح کے ساتھ رائج ہونا شروع ہوئے۔

غیر اسلامی دنیا میں ان حقوق کو کس طرح تسلیم کروایا گیا، اس کے لئے کتنے لوگوں کو جان کے نذرانے پیش کرنے پڑے، یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے اور تاریخ اس سے بخوبی واقف ہے۔لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ  اس تمام بحث میں انسان سے مراد صرف مرد لیا جاتا رہا جبکہ عورت ماضی قریب تک اسی استحصال کا شکار رہی جس کی وہ ایک عرصہ سے چلی آرہی تھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اگرچہ اقوام متحدہ کی سطح پر باقاعدہ انسانی حقوق کے لئے کمیشن تشکیل دیئے گئے اور درجنوں دستاویزات وجود میں آئیں لیکن اس ساری مشق میں بھی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ تشکیل پانے اور تمام ممبر ممالک کی طرف سے اسے اپنے قانون اور دستور کا حصہ بنانے کے باوجود عورتوں کے حقوق کے لئے الگ دستاویزات تیار کرنے کی ضرورت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ شاید  ان ارباب عقل کے نزدیک خواتین”انسان“ کی تعریف پر پورا نہیں اترتیں۔

1948ءمیں انسانی حقوق کے عالمی منشور کی تشکیل سے قبل اس حوالے سے کیا صورت حال تھی اور اس کی بہتری کے لئے کیا کیا کاوشیں ہوئیں اس کا مطالعہ بھی اہم ہے ۔ لیکن اس ضمن میں یہ سمجھنا کافی ہو گا کہ انسان کو اپنے فطری حقوق جو اسے پیدائشی طور پر حاصل ہیں انہیں حاصل کرنے ہی نہیں بلکہ صرف تسلیم کروانے کے لئے کئی صدیاں لگ گئیں۔ اس کے باوجود بھی یہ حقوق محدود طبقات کے لئے ہی تھے ۔ کہیں جاگیرداروں اور بادشاہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے ضمن میں جس کے نتیجے میں میگنا کارٹا (1215ء) وجود میں آیا، کہیں مزدوروں کے حقوق، کہیں سیاسی حقوق اورکہیں اس طرح کی دیگر اصطلاحات کی صورت میں کچھ دستاویزات سامنے آئیں۔

اسلام کے نقطہ نظر سے انسانی حقوق کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان کا وجودقدیم ہے۔ جب اللہ تعالی نے پہلا انسان روئے زمین پر بھیجا اور اسے ”اسماءکلھا“ کا علم دیا تو ساتھ ہی اسے دیگر افراد کے حقوق کا شعور بھی عطا کر دیا۔اور ہر نبی علیہ السلام کے پیغام میں یہ تمام حقوق سموئے ہو ئے تھے۔ لیکن بعد کے ادوار میں جیسے جیسے انسان نے آسمانی پیغام کو بھلا دیا اور اپنے انبیاءعلیہم السلام کی تعلیمات کو مسخ کر دیا تو ان حقوق کا تصور بھی ختم ہوتا چلا گیا۔ چونکہ انسانی فطرت ہے کہ اگر اسے کسی اعلی طاقت کا خوف نہ ہو تو وہ بہیمیت کی انتہا کو پہنچنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ  کمزوروں کو دبانا اور انہیں اپنی خدمت اور آسائش کے لئے استعمال کرنا انسانی تاریخ کا مکروہ ترین باب ہے۔ اور اس پورے کھیل میں چونکہ عورت سب سے کمزور اور قوت مدافعت سے عاری مخلوق تھی لہذا اس کی اس کمزوری سے بھر پور فائدہ اٹھایا گیا اور اسے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ بازاروں کے میلوں میں ان کی خریدوفروخت کی جاتی تھی،راہبانہ مذاہب میں لڑکیوں کو باعث نحوست اور گناہ کا سرچشمہ تصور کیا جاتا تھا۔ اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں تو آج بھی شوہر کی میت کے ساتھ عورت کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

ترقی کے اس دور میں مغرب نے ”حقوق نسواں “اور ”آزادیءنسواں“کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں جو حقوق عورت کو عطا کئے  ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ۔۔۔ اسے عملی طور پر طوائف اور داشتہ کی سطح پر لے آیا ہے، اسے ایک ایسی شے بنا ڈالا ہے جس سے مرد لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں میں اس کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ عملا جنس کے متلاشیوں اور کاروباریوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئی۔

اسلامی تصور
اسلام میں حقوق کا تصور انتہائی جامع ہے اور اس میں” انسان “کی اصطلاح میں تمام طبقات شامل ہیں  اور  انسان ہونے کے ناطے تمام طبقات "بنیادی انسانی حقوق" کے یکساں مستحق ہیں۔ اگرچہ بعض معاملات میں بعض افراد کے کچھ خاص حقوق ہیں جیسا کہ ، والدین کے حقوق، بچوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ لیکن انسانی حقوق کی حد تک تمام افراد بلا تفریق رنگ و نسل، ملک و ملت، قبیلہ و برادری برابر ہیں۔یہاں چونکہ حقوق نسواں ہمارا موضوع بحث ہے لہذا دیگر طبقات کا صرف اشارہ ہی کافی ہو گا۔

موجودہ دور میں بطور خاص 11 ستمبر2001 ءکے بعد سے اسلام ہر لحاظ سے مورد الزام ہے جس میں دہشت گردی ، انتہا پسندی اور انسانی حقوق قابل ذکر ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں اسلام کا جو تصور مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے یا خود بعض مسلمان ممالک میں بعض مسلمان جن جاہلانہ روایات پر عمل پیرا ہیں اس کی رو سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ ناانصافی کا رویہ روا رکھا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ہمارا دعوی ہے کہ" اسلام حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار ہے"۔ 

درحقیقت اسلام کی آفاقی اور انقلابی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور مرتبہءعزت عطا کیا ہے اور اگر اسلام کی طرف سے دیئے گئے حقوق کا اجمالی جائزہ لیا جائے  تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ان حقوق کا تصور دیگر تہذیبوں میں نہ آج ہے نہ اس کی کوئی مثال ماضی کے کسی دور میں ملتی ہے۔

اس وقت دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور یہ آبادی دنیا کے بہت سے معاشروں میں منقسم ہیں۔ ان تمام معاشروں کا رہن سہن یکساں نہیں ہے اور ہر معاشرے میں اسلام پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا بھی ممکن نہیں۔ لہذا ان معاشروں کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام میں خواتین کے حقوق کیا ہیں؟بلکہ اس سلسلے میں اسلامی شریعت کے حقیقی مصادر سے براہ راست رہنمائی لینا ضروری اور قرین انصاف ہے۔ 

اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اور ان مصادر سے ملنے والی تعلیمات نے عورت کو آج سے تقریبا 15 صدیاں قبل مرد کے برابر حقوق عطا کرتے ہوئے اسے مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی اسلامی مصادر کی روشنی میں حقوق نسواں کی نشاندہی کی جائے ۔البتہ اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دیگر قابل ذکر مذاہب اور تہذیبوں کی تعلیمات پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ اسلام کی تعلیمات کی جامعیت واضح ہوجائے (بضدها تتبين الاشياء)۔

مزید براں اس امر کی ضرورت بھی محسوس کی جاتی ہے کہ اسلام ایک عورت کو معاشرتی، معاشی، سماجی اورتمدنی لحاظ سے جو حقوق عطا کرتا ہے نیز معاشرے میں مختلف حوالوں سے عورت کے جوخصوصی حقوق عطا کئے گئے ہیں۔۔مثلا؛ ماں ، بہن، بیٹی وغیرہ ہونے کے ناطے ان کا تفصیلی جائزہ لے کر دنیا کے سامنے آشکار کیا جائے تا کہ ”حقوق نسواں “ اور ”آزادیءنسواں“ کے نام پر مذہب بیزار لوگوں کے پروپیگنڈے کا سد باب کیا جا سکے۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس کام کو بانداز احسن کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اسلام پسندوں کی فتوحات اور ضرورت احتیاط



یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ اسلام کی فطرت میں ایک ایسی قدرتی لچک ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اور جب ابھرتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ ابتدائے اسلام سے ہی کفر نے پوری کوشش کی کہ اس نظام زندگی کو پھلنے پھولنے نہ دیا جائے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ہر ممکن طریقہ آزمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ  و سلم کی ذات گرامی کو لالچ دے کر، پر کشش مراعات کا یقین دلا کر اور جب بات نہ بنی تو ایذا رسانی اور قتل کے منصوبوں تک نوبت پہنچ گئی۔ اور پھر پوری ملت کفر نے اسلام کو مٹانے کے لیے گٹھ جوڑ کر لیا لیکن یہ سارا دباؤ خود ان کے لیے وبال جان بن گیا اور اسلام اپنی اس قدرتی و فطری لچک کی وجہ سے ابھرتا ہی چلا گیا ۔ 

سقوط خلافت عثمانیہ کے کے بعد سے لے کر آج تک ایک بار پھر  اسلام اور مسلمان کسی نہ کسی طور پرغیر مسلم تسلط کے زیر سایہ رہے ۔ بلکہ ایک طویل عرصہ تک تمام ہی مسلم ممالک نو آبادیاتی نظام میں جکڑے رہے۔ اس نو آبادیاتی دور میں مسلمانوں کی تہذیب، کلچر، رسم و رواج اور زبان تک کو بدل دیا گیا۔ ایک طرف انگریز اور دوسری جانب فانسیسی طاقت نے مسلمانوں کی ظاہری و باطنی تباہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔  اور اب تک کسی نہ کسی صورت میں ان طاقتوں کا اثر و رسوخ مسلمان ممالک پر قائم ہے، حکومت سازی سے لے کر قانون سازی  اور پالیسی سازی تک ہر ہر پہلو ان کے زیر اثر ہے۔  ظاہری آزادی حاصل ہونے کے بعد بھی اب تک بیشتر مسلم ممالک اسی نظام یعنی سیکولرزم کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ اسلام پسندوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے مصر  کے مصطفی کمال سے لے کر حسنی مبارک تک، ترکی کے کمال اتا ترک اور اس کے پیروکاروں اور تیونس میں علی زین العابدین جیسے حکمرانوں نے جس طرح اسلام دشمنی کی مثالیں قائم کیں وہ کسی تذکرے کی محتاج نہیں ۔ 

کیوں کہ اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں   آیا اس لیے اس سارے عمل کا ایک رد عمل ضرور سامنے آنا تھا۔ 2011ء اس رد عمل کا سال ثابت ہوا۔ تیونس میں ایک نوجوان کی خود سوزی کے نتیجے میں شروع ہونے والا عوامی احتجاج بالآخر اسلامی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا اور اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں 52 فیصد نشستیں اسلام پسند لے گئے۔ یہ انقلاب اب تک کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور کتنے ہی جابروں کا بوریا بستر گول کروا چکا ہے۔ تیونس کے بعد مراکش  میں بھی احتجاج شروع  ہوئے جس کے نتیجے میں انتخابات ہوئے تو وہاں بھی اسلام پسندوں نے معرکہ مار لیا ۔ مراکش میں حکام کے مطابق اعتدال پسند اسلامی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (پی جے ڈی) نے پارلیمانی انتخابات جیت لیے ہیں۔ اب مصر میں انتخابات کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک کی اطلاع کے اخوان المسلمون اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ہے۔ اس سے قبل ترکی میں سیکولرزم کے سخت پہرے میں اسلام پسندوں کی مسلسل کامیابی کے مناظر بھی دنیا دیکھ چکی کے۔ عسکری میدان میں دیکھا جائے تو  افغانستان میں مسلمان مجاہدین طالبان نے عالمی طاقت اور اس کے اتحادی چالیس سے زائد ممالک کی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور اب مذاکرات کرنے اور افغانستان سے باعزت واپسی کے لیے مختلف طرح سے پاپڑ بیل رہے ہیں۔

 اس سارے منظر نامے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور اسلامی قوتیں ایک بار پھر ابھرنا شروع ہو گئی ہیں۔  لیکن یہ سب ملت کفر اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا۔  سیکولر عناصر کی شکست پرمغربی نظریات سے متاثر جماعتیں خاصی پریشان ہیں۔دراصل سیکولر جماعتوں کو انتخابات سے قبل اپنی کامیابی کا پکایقین تھا۔ شکست سے دوچار ہونے کے بعد انہوں نے الزامات لگانے اور تیونس کے مستقبل کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردیے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کی نظر آتی کامیابی سے اسرائیل کے پیٹ میں مروڑ پڑنا شروع ہو چکے ہیں۔ اور اسرائیل کے خدشات براہ راست امریکہ کے خدشات تصور کیے جاتے ہیں کیوں کہ سارے کھیل کے اصل مہرے یہودیوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ 

کامیابیوں کا یہ موسم بہت ہی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ انتقال اقتدار کے سارے مراحل بہت ہی حکمت عملی کے ساتھ طے کرنا ہوگا۔ اسلام کا آغاز جس طرح بالتدریج ہوا، محرمات اور مکروہات کی تعلیمات جس طرح مرحلہ وار دی گئیں اور ان پر عمل در آمد کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا  اس کی روح کے مطابق آئندہ کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔  جلد بازی یا جذباتیت کا مظاہرہ منفی نتائج پیدا کر سکتا ہے۔  اس حوالے سے ترکی میں جو طریقہ کار اپنایا گیا اس کا مطالعہ کرنا، اسے سمجھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل طے کر کے معاملات کو آگے بڑھانا یقینا مفید ہو گا۔  

کامیابی یقینا خوشی کا احساس دلاتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے اور  اس موقع کو درست طور پر استعمال کرنے کی توفیق طلب کرنے  کی بھی ضرورت ہے۔ اور یقینا فتح مکہ کے موقع پر فاتح عظیم نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو نمونہ ہمارے لیے چھوڑا اس سے بہتر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ تشکر کے جذبات سے سر جھکا ہوا ہو ، دشمنوں کے لیے "لا تثریب علیکم الیوم " کا اعلان ہو اور "لتکون کلمۃاللہ ھی العلیا" کا مقصد عظیم منتہائے نظر ہو۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

واقعہ کربلااور اس کے تقاضے



شیطان نے جس دن حضرت آدم علیہ السلا م کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اس دن سے ہی حق اور باطل کے درمیان کشمکش کا آغاز ہو گیا تھا۔ زمین پر انسان کے نزول کے بعد سب سے پہلے ہابیل اور کابیل کا واقعہ رونما ہوا اور اس کے بعدسے آج تک تاریخ انسانی ایسے واقعات سے لبریز ہے کہ کس طرح ابلیس اور اس کے پیروکاروں نے حق پرست بندگان خدا کو راہ راست سے باز رکھنے کی کوشش کی اور باز نہ آنے والے افراد کو مختلف انداز سے ایذا رسانی کا سلسلہ جاری رکھا جو کہ ہنوز جاری ہے۔فرعون، نمرود، ہامان ۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ اسی کا تسلسل ہیں ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرر بو لہبی

اسلامی تاریخ اپنی تمام تردرخشانیوں کے علی الرغم بعض ایسے واقعات لئے ہوئے ہے جو خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہیں ۔ جن کو رونما ہوتے دیکھ کر زمین و آسماں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا۔ ان واقعات میں سے واقعہ کربلا سب سے دردناک ہے۔ اس واقعے کی تفصیلات سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو ۔ نواسہ رسول ، جگر گوشہ بتول اپنے بہتر جانثاروں کے ساتھ نکلے اور اپنے نانا صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے باطل کے خلاف ڈٹ گئے۔ ان کی نگاہ میں تعداد اور مال و اسباب کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی یہ قدم نہ اٹھاتے ۔

جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی ، حکمران طبقہ عیش و عشرت میں مشغول ہو گیا ، شاہی خزانے کو اپنی ملکیت سمجھا جانے لگا ، اسلام کی بنیادی اقدار کا خاتمہ ہو گیا، نسلی اور قومی عصبیتوں کا دور شروع ہو گیا ۔ یزید کی حکومت قائم ہو گئی ۔ جس کی زبردستی بیعت لی جا رہی تھی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کر دیا ۔ اور بیعت کر بھی کیسے کر سکتے تھے ۔ اپنے نانا کی سنتوں سے کیسے منہ موڑ سکتے تھے ۔ تربیت ہی ایسی تھی کہ اسلام کے خلاف کوئی قدم اٹھانا تو کجا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
کوفہ کا علاقہ اسلامی تاریخ میں مختلف وجوہات کی بنا پر اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا۔ اس واقعہ میں بھی ان کا کردار قابل تعریف نہ رہا۔ انہوں نے خطوط بھیج کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا کہ آئیے ہم آپ کی بیعت کریں گے ۔ امام حسین اپنے اہل و عیا ل کے ساتھ کوفہ جانے کے لئے تیا ر ہوئے ۔ آپ کے قافلے میں معصوم بچے اور خواتین بھی شریک تھیں۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت مشیت الہی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر پہلے ہی دے دی تھی کہ حسین رضی اللہ عنہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر اسلام کی آبیاری اپنے خون سے کریں گے ۔ لیکن جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ، اس کا جو پس منظر تھا اسے جاننے سے اس قربانی کی اہمیت مزید اجاگر ہوجاتی ہے اور دل میں عظمت حسین رضی اللہ عنہ میں اضافہ ہوتا ہے ۔

تعداد صرف بہتر ، جن میں سے بھی 32سوار اور 40پیادہ ۔ کوئی فوج نہیں ۔اپنوں سے سینکڑوں میل دور ، خواتین اور بچوں کے ساتھ ۔ دوسری جانب چار ہزار فوج ، مسلح اور تربیت یافتہ ۔ان حالات میں اتنا بڑا قدم اٹھانا اور ناحق کے سامنے جھکنے سے انکا ر کر دینا بلا شبہ قربانی کا بہت اعلی مرتبہ ہے۔ ایں سعادت بزور بازہ نیست
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
معرکہ بپا ہو گیا ایک ایک کر کے تمام جانثار شہید ہوتے گئے ۔ آخر میں جنت کے نوجوانوں کے سردار رہ گئے ، نماز عصر کا وقت ہوا آپ نے نماز شروع کی جب آپ سجدے میں اپنے رب کے قریب ہوئے تو شمر نے آپ علیہ السلام کو شہید کر دیا ۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون(
ہر سال کی طرح اس سال بھی 10محرم الحرام کا دن گزر گیا۔ ہم میں سے ہر کسی نے روایتی انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرنے کی کوشش کی ۔ جلسے جلوس ہوئے، ریلیاں نکالی گئیں، ماتم ہوئے الغرض ہر کسی نے اپنے انداز سے اظہار محبت کے لئے کوشش کی۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس طرح ہم محبت کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے؟
کیا سنت شبیری ہم سے یہی تقاضا کرتی ہے ؟ کیا روز حشر ہم سر اٹھا کر یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے حق ادا کر دیاتھا؟ کہیں ہم دیگر رسم و رواج کی طرح یہ دن بھی صرف تقریبات میں تو نہیں گزار رہے؟

آج امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہے وہ ان سے چنداں مختلف نہیں ہیں جن میں امام شہید رضی اللہ عنہ نے عظیم قربانی دی۔ اگر مسلمان کفار کے مقابلے میں عددی لحاظ سے کم ہیں تو وہ بھی چار ہزار کے مقا بلے میں صرف بہتر تھے۔ اگر ہم جدید جنگی سازو سامان کے لحاظ سے دشمن سے کم ہیں تو ان72میں سے بھی صرف 32سوار تھے باقی پا پیادہ تھے۔اس پر مزید یہ کہ یہ قافلہ جنگ کے لئے تیار ہو کر نہیں گیا تھا کیوں کہ بچوں اور خواتین کو جنگی فوج میں نہیں رکھا جاتا۔ اور ہمارے پاس تیاری کے لئے بے شمار وقت ہے ۔ اگر ایک بار پھر وہی جذبہ بیدار ہوجائے تو وہ وقت دور نہیں جب چہار دانگ عالم میں اسلام کا پرچم لہرا رہا ہو اور پوری انسانیت امن اور چین کے ساتھ اسلام کی رحمتوں سے بہرہ ور ہو۔
اور اگر ہم کامیاب نہ بھی ہوئے تو کم از کم تاریخ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد تو رکھے گی ۔ کیوں کہ کربلا میں اگرچہ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے چند جانثاروں کے ساتھ شہید ہو گئے اور بظاہر ابن زیاد میدان جنگ میں کامیاب رہا ۔ اور جنگ کے بعد کوفہ کی جامع مسجد میں اس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر رکھ کر یہ اعلان بھی کیا کہ امام حسین ہار گئے اور یزید جیت گیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ امام حسین ہار کر جیت گئے اور یزید جیت کر ہار گیا کیوں کہ یہ خالق کائنات کی سنت ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے ۔ اس پر مزید یہ کہ جو حیات جاوداں اور تذکرہ خیر امام حسین کے حصے میں آیا وہ دوسروں کے لئے کہاں۔
نہ شمر کی وہ جفا رہی نہ ابن زیاد کا وہ ستم رہا
رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ایک بار پھر متحد ہو جائیں ، آپس کے اختلافات کو ختم کر کے اسلام کے حیقیقی پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لئے نواسہءرسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل پیرا ہو جائیں تاکہ کسی اسرائیل کی دوبارہ یہ ہمت نہ ہو کہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر چڑھ دوڑے۔ کسی افغانستان اور عراق پر امریکہ کو حملہ کرنے کی ہمت نہ ہو ۔ لیکن اس کے لئے ہمیں وہ جگر پیدا کرنا ہوگا کیوں کہ۔۔۔ آج ایک بار پھر وقت ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

افواج پاکستان نشانہ :: امتیازی رویوں کا نتیجہ



26نومبر کو افغانستان میں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے فریضہ مقدسہ پر مامور نیٹو افواج نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی اتحادی افواج، افواج پاکستان کی چوکی پر حملہ کر کے 24 باوردی جوان شہید کر دیے۔  شہادت پانے والوں میں صرف سپاہی نہیں بلکہ میجر رینک تک کے اہلکار شامل تھے۔ 

اس واقعہ کے بعد ہمارے عسکری قائدین و ارباب اقتدار   کو جن چیزوں احساس پہلی بار ہوا اور بڑی شدت سے ہوا وہ  ملکی سلامتی، حدود کی خلاف ورزی، استحکام پر حملہ زیادہ قابل زکر ہیں۔
خلاف معمول  پاکستان نے اس کاروائی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور فوری طور پر افواج پاکستان کے سربراہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے نیٹو کی سپلائی کو معطل کرنے کا حکم دے دیا۔   حکومت نے سخت احتجاج کیا، کابینہ کے اجلاس بلائے گئے، افغانستان سے  احتجاج کیا گیا کہ ان کے زمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی ہے، دفتر خارجہ نے امریکہ سفیر کیمرون منٹر سے وضاحت طلب کی ۔ الغرض وہ سب کچھ ہوا جو ایسے موقع پر ہونا چاہیے لیکن پہلے نہیں ہوتا تھا۔

یہ واقع کیوں رونما ہوا؟ یہ دانستہ تھا یا غیر ارادی ؟  اس کے اصل محرکات اور اسباب کیا ہو سکتے ہیں اس حوالے سے ایک سے زائد آراء پائی جاتی ہیں ۔  ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ جو کہ پاکستان پر ایک عرصہ سے دباؤ ڈال رہاہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف شمالی وزیرستان میں کاروائی کریں اور دہشت گردوں کے ساتھ جو روابط ہیں انہیں ختم کریں لیکن پاکستان مسلسل روابط کی تردید اور کاروائی سے تردد کر رہا ہے۔ اور گزشتہ ماہ کابل میں طالبان کے حملے اور ربانی کے قتل کے بعد یہ تک کہا گیا کہ اگر "کاروائی نہ کی گئی تو پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور ہم خود کاروائی کا حق رکھتے ہیں"۔ ہو سکتا ہے یہ اسی قولی بیان کا عملی نمونہ ہو۔ الغرض جو بھی ہوا اور جس وجہ سے بھی ہوا انتہائی افسوس ناک ہے ۔ 

ایک اہم بات جس کی جانب اس سارے مباحثوں اور مذاکروں میں کوئی توجہ نہیں دی گئی وہ یہ ہے کہ ہمیں اس حال تک پہنچانے میں سب سے اہم اور اصل سبب ہمارا امتیازی رویہ  ہے۔ ہم مساوات کے بلند بانگ دعوں کے باوجود تفریق آدمیت  کا شکار ہیں ۔ ہم وردی والے میں اور بغیر وردی والے میں فرق کرتے ہیں۔ ہم امیر اور غریب میں فرق کرتے ہیں، ہم افسر اور نوکر میں امتیاز کرتے ہیں۔

گزشتہ دس سال سے پاکستانی عوام کو خاک و خوں میں نہلا دیا گیا، 35 ہزار کے لگ بھگ لوگ اس نام نہاد اتحاد کا ایندھن بن گئے، پاکستان کے تعلیمی اداروں سے لے کر کاروباری مراز اور تو اور مساجد تک غیر محفوظ ہو گئیں۔ یہاں تک  عوامی حفاظت پر مامور ادارے بھی بلند و بالا قلعوں میں محصور ہو کر رہ گئے لیکن نہ ہمارے ارباب اختیار پر اور نہ عسکری قائدین کے کان پر کوئی جوں تک رینگی ۔  روز ڈرون حملے ہوتے رہے اور اپنی ہی سرزمین سے ہوتے رہے لیکن ہم نے مجرمانہ خاموشی سادھے رکھی۔ 

اب جب باوردی لوگ صرف 24 کی تعداد میں اس "دہشت گردی" کا شکار ہوئے تو عسکری قیادت سے لے کر ایوان اقتدار تک سب ہی تلملا اٹھے، ملکی سلامتی، سرحدوں کا تحفظ، خود مختاری، اور نہ جانے کون کون سی چیزیں پہلی بار انہیں خطرے میں محسوس ہوئیں۔ نیٹو سپلائی بند، بون کانفرنس میں شرکت سے معذرت اور ایئر بیسسز خالی کرنے کا فوری حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ 

اگر روز اول سے ہی پاکستان کے ارباب اقتدار ہر شہری کو یکساں تصور کرتے اور ایک عام فرد کی ہلاکت پر اس طرح  رد عمل کا اظہار کرتی۔ سرحدوں کی خلاف ورزی کو پہلے دن سے ہی ملکی سالمیت اور خود مختاری  پر حملہ تصور کرتی اور ملکی وقار کو وہی اہمیت دیتی جو 24فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد سامنے آیا ہے تو نہ ریمنڈ ڈیوس آتے، نہ سانحہ ایبٹ آباد پیش آتا اور نہ سلالہ چیک پوسٹ پر ہم اپنے قیمتی 24 جوان یوں ضائع کرتے۔ ہمارے اس دوغلے رویے نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے کہ جب کسی کا دل چاہا چڑھ دوڑا ۔ 

اب بھی وقت ہے کہ اگر ہم ہر شہری کو یکساں اہمیت دیں اور ہر طرح کی بیرونی مداخلت پر ایسا ہی جرات مندانہ رد عمل ظاہر کریں تو ہم اپنا کھویا ہوا وقار، تباہ شدہ امن اور روٹھی ہوئی خوشیاں واپس لا سکتے ہیں ۔  
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

سنت ابراھیمی ۔ نار نمرود سے نجات کا واحد ذریعہ


ویسے تو تمام ہی انبیاءکرام علیہم السلام معصوم اور قابل تقلید تھے لیکن بعض کو جو درجہ اور مقام حاصل ہوا وہ رہتی دنیا تک کے لیے کامیابی کا ضامن ہے۔ اسی فرق مراتب کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہوا "تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض" کہ ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔ افضل ترین اور الوالعزم انبیاءمیں ابراہیم علیہ السلام کو خاص مقام حاصل تھا۔ انہوں نے جن حالات میں جن آزمائشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا وہ آج کے حالات میں ہمارے لئے بہترین مشعل راہ ہے۔ 

آخر وہ کیا عمل تھا اور وہ کیا طریقہ کار تھا جس پر چل کر سیدنا ابراہیم کو یہ مقام ذی شان حاصل ہوا؟ اور وہ کیا سنتیں انہوں نے چھوڑی ہیں کہ سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنے کے لئے ہر سال مسلمانوں کو قربانی کا حکم ملا ،حج بیت اللہ فرض ہوا اور سیدہ حاجرہ کی یاد میں صفا و مروة کے درمیان سات چکر لگانے کو لازمی قرار دیا گیا؟ اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات پر اک نظر دوڑانی پڑے گی۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک بت ساز اور بت فروش کے گھر میں پیدا ہوئے، اور یہ کوئی معمولی پیشہ نہ تھا۔ پتھروں کو خدا بنانے کا کام یقینا اپنے وقت کا اہم ترین اور معزز ترین پیشہ ہوگا۔ اور اس پیشے کی وجہ سے آزر اور اس کے خاندان کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوگا۔ ہر باپ کی طرح آزر کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بھی یہ کام سیکھ لے، اور مستقبل میں جانشینی کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے خاندان کے اس شرف کو برقرار رکھے۔ لیکن " تدبیر کنند بندہ تقدیر کنند خندہ" ۔

اسے کیا علم تھا کہ جسے وہ بت ساز اور بت فروش بنانے کا سوچ رہا ہے وہ تو بت شکن بنے گا۔ نہ صرف مٹی کے بت بلکہ وہ معاشرے میں بنے ہوئے ہر بت کو پاش پاش کرنے کے لئے آیا ہے ۔چاہے وہ بت خوف غیر اللہ کا ہو، چاہے وہ بت انسانوں کی خدائی کا ہو یا خاندانی تفاخر کا ہو۔ اور آپ نے اپنی زندگی میں یہ سب کر دکھایا، ہر بت کو پاش پاش کیا اور اسباب کے بجائے مسبب الاسباب پر یقین و ایمان کی درخشاں مثالیں پیش کیں ۔

آپ علیہ السلام کی زندگی یوں تو ساری کی ساری قابل تقلید ہے، اس پر چل کر کامیابی کا حصول یقینی ہے لیکن اگر ہم اس فسلفہ حیات کو تلاش کرنا چاہیں جس کے باعث آپ کے زندگی کو سنت قرار دے کر رہتی دنیا تک کے لئے کامیابی کی ضمانت اور مشعل راہ بنا دیاگیا تو وہ ہے "معمولات زندگی میں فکر و تدبر اور عقل کا استعمال لیکن جب حکم خداوندی آ جائے تو بلا چوں و چراں سر تسلیم خم کر دینا"۔ 

ابتدا ءہی فکر و تدبر سے ہے۔ تارا دیکھا ، چاند دیکھا، سورج دیکھا، یہی سمجھا کہ بس یہی رب ہیں لیکن جب انہیں غروب ہوتے اور زوال پذیرہوتے دیکھا تو سوچا کہ وہ کیسے رب ہو سکتا ہے جو خود ڈوب جائے۔ بلکہ ضرور کوئی ہے جو اس کائنات کو چلا رہا ہے اور سب اس کے حکم کے پابند ہیں۔

پھر دیکھیے بت شکنی کا کا م سر انجام دینا تھا، اپنے آپ کو بیمار بنایا۔ جب سب چلے گئے تو سارے بت توڑ کر کلہاڑی بڑے بت کی گردن پر لٹکا دی اور پوچھنے پر فرمایا کہ "یہ تو ان کے بڑے نے کیا ہے"۔ مقصد ان کو یہ باور کرانا تھا کہ جو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے، مکھی تک نہیں اڑا سکتے اور بول نہیں سکتے وہ کیسے الوہیت اور ربوبیت کے درجے پر فائز ہو سکتے ہیں؟۔

بادشاہ کے ساتھ تاریخی مکالمہ دیکھ لیجئے۔ جب بادشاہ نے زندگی اور موت کا اختیار اپنے پاس ہونے کا دعوی بھی کر دیا اور دو اشخاص میں سے ایک کو مارنے اور دوسرے کو زندہ چھوڑنے کا حکم دے کر بظاہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو لا جواب کرنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا کہ ’میرا رب تو مشرق سے سورج نکالتا ہے ، اگر تو خدائی کا دعوے دار ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھا۔ "فبھت الذی کفر" کافر بادشاہ حیران و پریشان رہ گیا ۔

اس طرح کے بے شمار واقعات سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں ملتے ہیں جہاں تلاش حق کی جستجو اور فکر و تدبر کا استعمال نہایت ہی بہترین انداز میں ملتا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ اس صلاحیت کو رب کی دین ہی سمجھتے ہیں،اور جب کسی حوالے سے رب کا حکم آ جائے اطاعت وفرمانبرداری کے ایسے باب رقم ہوتے ہیں کہ تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، عقل کا استعمال کر کے تاویلیں اور حیلے تراشنے کے بجائے  ’بے خطر آتش نمرود میں عشق‘ کا منظر پیش کیا۔
بڑھاپے میں عطا ہونے والے فرزند اور شریکہ حیات کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑنے کا واقعہ ہو یا اپنے ہی بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں سے خدا کے لئے ذبح کرنے کا حکم، یا پھر نار نمرود میں کودنے کا مرحلہ۔ بلا چوں و چراں اس طرح سر تسلیم خم کر دیا کہ"عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی"۔

آج جب ہم ہر طرف سے آتش نمرود میں گھرے ہوئے ہیں، تمام عالم کفر ملة واحدہ کی صورت مسلمانوں پر پل پڑا ہے، صرف مسلمان ہونے کے جرم کی پاداش میں ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کہ الامان و الحفیط۔ ان حالات میں سنت ابراھیمی ہی وہ لائحہ عمل اور وہ راہ نجات ہے جس پر عمل کر کے حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اور سنت ابراہیمی یہ ہے کہ  "معمولات زندگی میں فکر و تدبر اور عقل کا استعمال لیکن جب حکم خداوندی آ جائے تو بلا چوں و چراں سر تسلیم خم کر دینا"۔ 

آج بھی ہو جو ابراہیم کا یمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

فکرِ اقبال کا پیغام ۔ نوجوانوں کے نام



آج 9  نومبر اس عظیم انسان کا یوم پیدائش ہے جسے ہم میں سے اکثر بطور شاعر جانتے ہیں لیکن اسے صرف شاعر کہنا اس کی شان میں کمی کے مترادف ہے۔ گزشتہ صدی کا ایک عظیم مفکر، جس کی فکر نے کبوتر کے تن نازک میں شاہیں کا جگر پیدا کر دیا، ایک عظیم فلسفی جس کے فلسفے نے بےعملی کے عمومی رویے سے ہٹ کر عملیت اور جدو جہد کا درس دیا۔ ایک سیاسی مدبر جس نے بیسویں صدی کے سب سے کامیاب نظریہ ‘‘نظریہ پاکستان’’ کا تصور پیش کیا اور اسے حقیقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ ایک صوفی جس نے تمام قدیم رائج شدہ تصورات کے خلاف آواز اٹھائی جن کے خلاف بولنے پر کفر کے فتوے منتظر تھے جس کا ذکر ‘‘ابلیس کی مجلس شوریٰ’’ میں بالتفصیل ہے۔ذکرو فکر صبح گاہی اور مزاج خانقاہی میں پختہ تر ہو کر دنیا و ما فیہا سے بے خبر ہونے کی مذمت کرتے ہوئے اس حقیقی تصوف اور تزکیے کا درس دیا جو مطلوب شریعت ہے۔ ایک شاعر بے مثل جس نے زلف گرہ گیر، وصل و فراق، عشق و حسن کے جاں گداز جذبات اور ہوش ربا داستانوں سے ہٹ کر ایک مژدہ جانفزا اور ایک پیام امید دیا۔ شاندار ماضی کی جھلک دکھا کر پر شکوہ مستقبل کے لئے حال میں جدو جہد کرنے کا درس دیا۔ جمود و انحطاط سے نکل کر اجتہاد و ارتقاء کی شاہراہ پر گامزن ہونے کا جوش و ولولہ دیا۔

اقبال کی فکر کو عموما تین ادوار میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ یہ تین ادوار ہیں جن میں فکری ارتقاء ہوا۔ یہ تقسیم اس لئے بھی ضروری ہے کہ اس کے بغیر بادی النظر میں ان کے ابتدائی اور آخری دور کے خیالات میں تضاد نظر آتا ہے۔ وہی اقبال جو ایک دور میں ہندو مسلم اتحاد کے زبردست حامی تھے اور مبہم طور پر ایک قوم کے تصور کی طرف جار رہے تھے جس کا ایک ثبوت ان کا مندرجہ ذیل شعر ہے
سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا
ہم بلبلیں ہیں اس کی یہ گلستاں ہمارا
لیکن جب انہوں نے انگلستان جا کر مغربی قومیت اور وطنیت کو قریب سے دیکھا اور اسلام کے سیاسی و سماجی نظام کا خصوصی مطالعہ کیا تو جدید جغرافیائی وطنیت کے شدید مخالف اور وطن اور سرحدوں کی قید سے ما وراء ہو جاتے ہیں اور صرف اسلام کو ہی قومیت کی بنیاد قرار دیتے ہیں
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
اور
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
عام شاعرانہ اور فلسفیانہ بے عملی اور حال مستی کے بر عکس علامہ اقبال اقبال بطور ایک مفکر اور شاعر تحرک کے قائل تھے۔ ان کا خیال تھا کہ معاشرے کو متحرک رکھنے کے لئے ہر دم تازہ افکار و خیالات از حد ضروری ہیں "جہانِ تازہ کی افکار تازہ سے ہے نمود" یہی وجہ ہے کہ انہوں نے جمود کو ختم کرکے اس فکری ارتقاء اور عقلیت پسندی کی حمایت کی جس کو مسلمان علماء ایک عرصہ سے چھوڑ چکے تھے۔ تہذیبی زوال چونکہ علمی اور فکری زوال کے باعث آتا ہے اور اس وقت مسلمان من حیث القوم فکری اور علمی حوالے سے شدید جمود، زوال اور احساس محرومی کا شکار تھے۔ ماضی پرستی کی دھن میں مستقبل سے نظریں چرا رہے تھے۔ انہوں نے اعتماد، خودی اور جدو جہد کا درس دے کر دل مسلم میں وہ تمنا پیدا کرنے کی کوشش کی جو قلب کو گرما دے اور روح کو تڑپا دے۔ اور مسلم نوجوانوں کو چشم تصور میں وہ گردوں دکھایا جس کا وہ ایک ٹوٹا ہوا ستارا ہے۔ علامہ اقبال کے افکار میں یہ حقیقیت پسندی، عملیت، فکری و عملی ارتقاء کی دعوت اور فلسفہ خودی اس لئے تھا کہ ان کی فکر براہ راست قرآن و سنت سے ماخوذ ہے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جو فکر سے زیادہ عمل پر زور دیتی ہے اور انہیں یہ یقین تھا کہ اسلام ہی وہ زندہ قوت ہےجو ذہن انسانی کو نسل و وطن کی قیود سے آزاد کر کے بنی نوع انسان کی فلاح کا راستہ ہموار کر سکتی ہے۔
 آج مسلمان جس فکری و عملی دیوالیہ پن کا شکار ہیں، جمود و انحطاط کی جس دلدل میں پھنسے ہوئے ہیں، غیروں سے مرعوبیت اور ذہنی غلامی کی جن پستیوں میں گرے ہوئے ہیں اس کی مثال اسی شکست خورہ شاہین کی سی ہے جو کرگسوں میں پلا ہو۔ ان حالات میں فکر اقبال ایک مژدہ جانفزا اور امید کا پیغام ہے۔ اس بار ہمیں روایتی انداز میں صرف تقاریب کا اہتمام کرنے اور پھر سب کچھ بھول جانے کے بجائے پیام اقبال کو سمجھنا ہوگا، اور یہ عہد کرنا ہو گا اب جوئے شیر و تیشہ و سنگ گراں والی زندگی کی حقیقت کو پانا ہے اور اس فکر کو اپنا کر خودی کے اس مقام تک پہنچنا ہے کہ
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے

پھر ان شاء اللہ حالات بدلیں گے اور اس آدم خاکی کو وہ عروج حاصل ہو گا کہ انجم بھی سہم جائیں گے۔
لیکن اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اس پیغام کو سمجھ کر اس پر عمل کرنے کی کوشش نہ کی تو "ہماری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں" 

تحریر: راجہ اکرام الحق
مکمل تحریر اور تبصرے >>>