Pages

11.25.2011

سنت ابراھیمی ۔ نار نمرود سے نجات کا واحد ذریعہ


ویسے تو تمام ہی انبیاءکرام علیہم السلام معصوم اور قابل تقلید تھے لیکن بعض کو جو درجہ اور مقام حاصل ہوا وہ رہتی دنیا تک کے لیے کامیابی کا ضامن ہے۔ اسی فرق مراتب کو بیان کرتے ہوئے قرآن کریم میں ارشاد ہوا "تلک الرسل فضلنا بعضھم علی بعض" کہ ہم نے بعض رسولوں کو بعض پر فضیلت عطا کی ہے۔ افضل ترین اور الوالعزم انبیاءمیں ابراہیم علیہ السلام کو خاص مقام حاصل تھا۔ انہوں نے جن حالات میں جن آزمائشوں سے مقابلہ کرتے ہوئے ثابت قدمی اور استقامت کا مظاہرہ کیا وہ آج کے حالات میں ہمارے لئے بہترین مشعل راہ ہے۔ 

آخر وہ کیا عمل تھا اور وہ کیا طریقہ کار تھا جس پر چل کر سیدنا ابراہیم کو یہ مقام ذی شان حاصل ہوا؟ اور وہ کیا سنتیں انہوں نے چھوڑی ہیں کہ سنت ابراہیمی کو زندہ رکھنے کے لئے ہر سال مسلمانوں کو قربانی کا حکم ملا ،حج بیت اللہ فرض ہوا اور سیدہ حاجرہ کی یاد میں صفا و مروة کے درمیان سات چکر لگانے کو لازمی قرار دیا گیا؟ اس فلسفے کو سمجھنے کے لئے سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی حیات پر اک نظر دوڑانی پڑے گی۔

سیدنا ابراہیم علیہ السلام ایک بت ساز اور بت فروش کے گھر میں پیدا ہوئے، اور یہ کوئی معمولی پیشہ نہ تھا۔ پتھروں کو خدا بنانے کا کام یقینا اپنے وقت کا اہم ترین اور معزز ترین پیشہ ہوگا۔ اور اس پیشے کی وجہ سے آزر اور اس کے خاندان کو معاشرے میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہوگا۔ ہر باپ کی طرح آزر کی بھی یہی خواہش تھی کہ اس کا بیٹا بھی یہ کام سیکھ لے، اور مستقبل میں جانشینی کے فرائض سر انجام دیتے ہوئے خاندان کے اس شرف کو برقرار رکھے۔ لیکن " تدبیر کنند بندہ تقدیر کنند خندہ" ۔

اسے کیا علم تھا کہ جسے وہ بت ساز اور بت فروش بنانے کا سوچ رہا ہے وہ تو بت شکن بنے گا۔ نہ صرف مٹی کے بت بلکہ وہ معاشرے میں بنے ہوئے ہر بت کو پاش پاش کرنے کے لئے آیا ہے ۔چاہے وہ بت خوف غیر اللہ کا ہو، چاہے وہ بت انسانوں کی خدائی کا ہو یا خاندانی تفاخر کا ہو۔ اور آپ نے اپنی زندگی میں یہ سب کر دکھایا، ہر بت کو پاش پاش کیا اور اسباب کے بجائے مسبب الاسباب پر یقین و ایمان کی درخشاں مثالیں پیش کیں ۔

آپ علیہ السلام کی زندگی یوں تو ساری کی ساری قابل تقلید ہے، اس پر چل کر کامیابی کا حصول یقینی ہے لیکن اگر ہم اس فسلفہ حیات کو تلاش کرنا چاہیں جس کے باعث آپ کے زندگی کو سنت قرار دے کر رہتی دنیا تک کے لئے کامیابی کی ضمانت اور مشعل راہ بنا دیاگیا تو وہ ہے "معمولات زندگی میں فکر و تدبر اور عقل کا استعمال لیکن جب حکم خداوندی آ جائے تو بلا چوں و چراں سر تسلیم خم کر دینا"۔ 

ابتدا ءہی فکر و تدبر سے ہے۔ تارا دیکھا ، چاند دیکھا، سورج دیکھا، یہی سمجھا کہ بس یہی رب ہیں لیکن جب انہیں غروب ہوتے اور زوال پذیرہوتے دیکھا تو سوچا کہ وہ کیسے رب ہو سکتا ہے جو خود ڈوب جائے۔ بلکہ ضرور کوئی ہے جو اس کائنات کو چلا رہا ہے اور سب اس کے حکم کے پابند ہیں۔

پھر دیکھیے بت شکنی کا کا م سر انجام دینا تھا، اپنے آپ کو بیمار بنایا۔ جب سب چلے گئے تو سارے بت توڑ کر کلہاڑی بڑے بت کی گردن پر لٹکا دی اور پوچھنے پر فرمایا کہ "یہ تو ان کے بڑے نے کیا ہے"۔ مقصد ان کو یہ باور کرانا تھا کہ جو خود اپنی حفاظت نہیں کر سکتے، مکھی تک نہیں اڑا سکتے اور بول نہیں سکتے وہ کیسے الوہیت اور ربوبیت کے درجے پر فائز ہو سکتے ہیں؟۔

بادشاہ کے ساتھ تاریخی مکالمہ دیکھ لیجئے۔ جب بادشاہ نے زندگی اور موت کا اختیار اپنے پاس ہونے کا دعوی بھی کر دیا اور دو اشخاص میں سے ایک کو مارنے اور دوسرے کو زندہ چھوڑنے کا حکم دے کر بظاہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو لا جواب کرنے کی کوشش کی تو آپ نے فرمایا کہ ’میرا رب تو مشرق سے سورج نکالتا ہے ، اگر تو خدائی کا دعوے دار ہے تو سورج کو مغرب سے طلوع کرکے دکھا۔ "فبھت الذی کفر" کافر بادشاہ حیران و پریشان رہ گیا ۔

اس طرح کے بے شمار واقعات سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں ملتے ہیں جہاں تلاش حق کی جستجو اور فکر و تدبر کا استعمال نہایت ہی بہترین انداز میں ملتا ہے۔ لیکن کمال یہ ہے کہ اس صلاحیت کو رب کی دین ہی سمجھتے ہیں،اور جب کسی حوالے سے رب کا حکم آ جائے اطاعت وفرمانبرداری کے ایسے باب رقم ہوتے ہیں کہ تاریخ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے، عقل کا استعمال کر کے تاویلیں اور حیلے تراشنے کے بجائے  ’بے خطر آتش نمرود میں عشق‘ کا منظر پیش کیا۔
بڑھاپے میں عطا ہونے والے فرزند اور شریکہ حیات کو بے آب و گیاہ صحرا میں چھوڑنے کا واقعہ ہو یا اپنے ہی بیٹے کو اپنے ہی ہاتھوں سے خدا کے لئے ذبح کرنے کا حکم، یا پھر نار نمرود میں کودنے کا مرحلہ۔ بلا چوں و چراں اس طرح سر تسلیم خم کر دیا کہ"عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی"۔

آج جب ہم ہر طرف سے آتش نمرود میں گھرے ہوئے ہیں، تمام عالم کفر ملة واحدہ کی صورت مسلمانوں پر پل پڑا ہے، صرف مسلمان ہونے کے جرم کی پاداش میں ظلم و ستم کے وہ پہاڑ توڑے جا رہے ہیں کہ الامان و الحفیط۔ ان حالات میں سنت ابراھیمی ہی وہ لائحہ عمل اور وہ راہ نجات ہے جس پر عمل کر کے حالات میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ اور سنت ابراہیمی یہ ہے کہ  "معمولات زندگی میں فکر و تدبر اور عقل کا استعمال لیکن جب حکم خداوندی آ جائے تو بلا چوں و چراں سر تسلیم خم کر دینا"۔ 

آج بھی ہو جو ابراہیم کا یمان پیدا
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

6 comments:

Unknown نے لکھا ہے

ماشااللہ بہت اچھا مضمون اور آخر میں ایک اچھا اور سبق آموز پیغام۔۔۔۔۔اللہ سبحانہ و تعالی آپ کو اس کی جزا دے۔ آمین

November 26, 2011 at 4:34 AM
Unknown نے لکھا ہے

سلام مسنون
پسندیدگی اور دعا کے لیے شکریہ

November 26, 2011 at 4:37 AM
Anonymous نے لکھا ہے

Thanks

kafi informative article likha aap ne

November 28, 2011 at 6:11 AM
Unknown نے لکھا ہے

السلام علیکم
شکریہ محترمہ تحریم صاحبہ
امید ہے گاہے گاہے تشریف لاتی رہیں گی اور حوصلہ افزائی کرتی رہیں گی

November 28, 2011 at 8:31 AM
Behna Ji نے لکھا ہے

السلام علیکم
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الہ الااللہ لا الہ الااللہ

ٹھیک کہا آپ نے بھائ ساری بات عقل اور عشق کے توازن کی ہی ہے-

April 25, 2012 at 2:45 AM
Unknown نے لکھا ہے

AAP NY BHT ACHI BAAT KR K HM MUSLMANO KO BHT ACHA SABQ DIYA KASH HM ES P AML KR SAKAIN.

February 3, 2013 at 12:25 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔