نصاب تعلیم کا نفسیاتی پہلو: پہلو تہی کے منفی اثرات
راجہ اکرام الحق:
نوجوان قوم کے
معمار ہوتے ہیں اور ان معماران کی بہترین تعمیر میں
جہاں والدین، معاشرہ اور استاد کردار ادا کرتے ہیں وہیں نصاب تعلیم کا کردار بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوا
کرتا ہے۔ کیوں کہ نصابِ تعلیم ذہنی پرداخت اور فکری تشکیل
کے ساتھ ساتھ شخصیت کی تعمیر و ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بچے کے ناپختہ اور صاف ذہن میں جو تصویر درسگاہ
میں ابتدائی سال سے اپنے نقش و نگار ابھارنا شروع کرتی ہے تعلیم سے فراغت تک وہ
تصویر اس حد تک پختہ ہو جاتی ہے کہ اس کے نقوش انمٹ ہو جاتے ہیں۔
اس لیے کسی بھی
ملک میں نصاب سازی کے کام کو بنیادی اہمیت
دی جاتی ہے۔ نصاب سازی کا کام پختہ، تجربہ
کار اور ماہرین نفسیات کو سونپا جاتا ہے تا کہ ایسا
نصاب تیار ہو جو ملکی و ملی مفاد
سے ہم آہنگ ہو اور مطلوبہ افراد کار کی تیاری میں ممد و معاون ہو۔ لہذا یہ کہنا کسی طور غلط نہ ہو گا کہ تعلیم کا
اہم ہدف انسان سازی ہے۔ جس نے اس صنعت پر
توجہ دی اس نے دنیا سے اپنا لوہا منوایا
اور جس نے اس معاملے میں نا اہلی اور عدم
دلچسپی کا مظاہرہ کیا غلامی اس کا مقدر ٹھہری۔
یوں تو وطن عزیز میں اس وقت درجن بھر کے لگ بھگ نظام ہائے
تعلیم رائج ہیں لیکن اگر ہم اپنی سہولت کے
لیے کسی بڑی اور واضح تقسیم پر قناعت کرنا چاہیں تو ہم یہ
کہہ سکتے ہیں کہ ہمارا نظام تعلیم تین بڑے
نظاموں میں منقسم ہے۔ ایک حکومتی یا
سرکاری نظام تعلیم، دوسرا پرائیویٹ نظام تعلیم جس میں بیشتر برطانیہ اور امریکہ کا
تیار کردہ نصاب رائج ہے۔ اور تیسرا دینی نظام تعلیم جو کہ مدارس عربیہ کی صورت میں
ملک کے طور و عرض میں رائج ہے۔ ان تینوں نظاموں سے تیار ہونے والے افراد کے رویے،
طرز عمل ، ذہنی ساخت اور انداز فکر ایک
دوسرے سے بالکل مختلف ہوتا ہے کیوں کہ ان
تینوں نظام ہائے تعلیم کے نصابات ایک دوسرے سے یکسر مختلف ہیں۔
اگر سرکاری نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو محسوس ہوتا ہےکہ
انسان سازی کی یہ صنعت اپنی پیداواری صلاحیت کے لحاظ سے بانجھ پن کا
شکار ہے۔ کہیں نہ کہیں کوئی ایسی کمی ضرور ہے جس کی وجہ سے یہ تعلیمی ڈھانچہ ملکی و ملی تقاضوں اور معاشرتی اقدار سے اہم آہنگ رجال کار فراہم
کرنے سے قاصر ہے ۔ اس سے نکلنے والے بیشتر افرا د فکری و عملی طور پر کمزور ہونے کے ساتھ
ساتھ ذہنی مرعوبیت کا شکار ہوتے ہیں۔ اور علمی بالغ نظری کے فقدان کے ساتھ ساتھ حب الوطنی کے جذبہ مطلوبہ سے عاری بھی ہوتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں پرائیویٹ یا نجی تعلیمی نظام کے فارغ
التحصیل جن کے شب و روز آکسفورڈ اور
کیمبرج کے نصاب ہائے تعلیم کو پڑھتے ہوئے گزرتے ہیں ، اور جن کی فکری و ذہنی پرداخت اسی خاص ماحول میں ہوتی ہے وہ علمی طور پر مضبوط اور پر اعتماد تو ہوتے ہیں لیکن ملکی مفاد اور جذبہ
حب الوطنی کے فقدان کا شکار ہوتے ہیں۔یہی لوگ برسر اقتدار آتے ہیں اور بیرونی
آقاؤں کی خوشنودی کے لیے ملکی مفاد اور خود مختاری تک کو داؤ پر لگا دیتے ہیں۔ اول الذکر جو کام مرعوبیت کی وجہ سے کر تے ہیں
وہی کام ثانی الذکر خوشنودی کے لیے کر
گزرتے ہیں۔ الغرض دونوں ہی طرح کے افراد ہمارے معاشرتی اور ملکی مزاج کے لیے سود مند نہیں ہیں۔
اس ساری
صورتحال کی اصل وجہ یہی ہے کہ ان نصاب ہائے تعلیم کی تیاری ہماری قومی و معاشرتی
نفسیات اور ضرورتوں کے مطابق نہیں ہوئی۔ سرکاری نظام تعلیم لارڈ میکالے کے "سنہری
اصولوں" پر کاربند ہے تو پرائیوٹ نظام سارا کا سارا ہے ہی درآمد شدہ۔
ان دو نظاموں کے
مقابلے میں رائج دینی نظام تعلیم کا جائزہ لیا جائے تو وہ ایک اور انتہا پر ہے۔ لب و لہجہ اور انداز و اطوار پانچ صدیاں قبل
والے، اپنے سوا کسی کو خاطر میں نہ لینا ،
اپنا کلام پیش کر دینا اور جواب آں غزل سننے کا روادار نہ ہونا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ بہت سے ایسے معاملات جو
افہام و تفہیم اور مذاکرے و مکالمے سے حل ہو سکتے ہیں ان میں بھی نوبت دست و گریباں ہونے تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ
حال تو اپنے ہم مذہب افراد کے ساتھ ہے۔
جہاں تک غیر مسلموں کا تعلق ہے تو وہ اس
قابل ہی نہیں کہ ان کے ساتھ مکالمہ کیا جائے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مدارس میں رائج نصاب اس زمانے
کا ہے جب مسلمان حاکم اور طاقت ور تھے۔ لہذا نصاب وہ نفسیاتی پہلو رچا بسا ہے جو ایک حکمران قوم کا ہوا کرتا ہے۔
مدارس
دینیہ میں رائج موجودہ نصاب اورنگزیب کے
زمانے میں نظام الدین فرنگی محلی کا ترتیب
دیا ہوا" درس نظامی" ہے۔ اس وقت
مسلمان اقتدار میں تھے اور مقتدر قوم کی فکری و ذہنی ساخت نفسیاتی طور پر محکوم سے کئی لحاظ سے
مختلف ہوتی ہے۔ اسی کے پیش نظر "درس نظامی" کی تیاری میں اُس وقت
اور حالات کے تقاضوں کو پیش نظر رکھا گیا،
ان ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کی گئی جو ایک حکمران قوم کی ہوا کرتی ہیں
اور ایسا نصاب تیار کیا گیا جس سے نکلے ہوئے افراد نہ صرف معاشرتی بلکہ انتظامی و
حکومتی ذمہ داریاں بھی بانداز احسن ادا کر
سکیں۔ جبکہ آج کے دور میں مسلمانوں کی
حالت کا اگر جائزہ لیا جائے تو ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد کے بعد سے اب تک ہم کبھی
ذہنی، کبھی جسمانی اور کبھی دونوں طرح کی غلامیوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ آج کے دور کے تقاضے
اس دور سے یکسر مختلف ہیں، اب معاملہ حاکم اور محکوم کا نہیں رہا، بلکہ کہیں
مسلمان مغلوب ہیں اور کہیں معاملہ برابری کی سطح کا ہے۔ ایسے میں مذاکرات ،
مکالمہ، کچھ دو اور کچھ لو کے اصولوں کو اپنانا ناگزیر ہے لیکن طبقہ علماء میں یہ
خو بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے۔
کسی بھی ملک کا
نظام تعلیم جن مقاصد و اہداف کے حصول کے
لیے کوشاں ہوتا ہے مذکورہ بالا نظام ہائے تعلیم
ان مقاصد و اہداف کے حصول میں مطلوبہ کامیابی حاصل کرنے
سے تا حال قاصر ہیں۔ اس ناکامی میں جو عنصر کلیدی کردار ادا کر رہا ہے وہ نصاب تعلیم
ہے۔ نصاب کا نفسیات کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہوتا ہے۔ نصابِ تعلیم
طلبہ کی ذہنی پرداخت پر نفسیاتی پہلو سے اس طرح اثر انداز ہوتا ہے کہ ان کی
ظاہری و باطنی شخصیت میں غیر محسوس انداز سے ایک خاص نفسیاتی طرز عمل
غالب آ جاتا ہے اور اس نفسیاتی طرز عمل کا رنگ معمولات حیات میں جا بجا نظر آتا ہے۔
ان معروضات کے پیش نظر ہمارے ارباب اقتدار کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بطور خاص موجودہ ملکی حالات میں ہم جس قدر قحط الرجال کا شکار ہیں ایسے میں یہ ناگزیر ہو گیا ہے کہ موجودہ نصاب کی اساسی کتب اور بنیادی مضامین کو برقرار رکھتے ہوئے ایسا نصاب تیار کیا جائے تو جو ملکی تقاضوں اور ہماری معاشرتی اقدار سے ہم آہنگ ہو اور جس کے تیار کردہ رجال کار اپنی مطلوبہ ذمہ داریاں بانداز احسن ادا کر سکیں۔
6 comments:
جزاک اللہ بھائی !
June 5, 2012 at 11:36 PMبہت عمدہ تحریر ہے لیکن میرے خیال میں مدارس کے بارے میں جو نقطہ نظر آپ نے پیش کیا ہے اس میں خاصی تبدیلی واقع ہوچکی ہے اور مدارس اپنے آپ (نظام تعلیم ) کو حالات و واقعات سے ہم آہنگ کرنے کی رخ پر چل پڑے ہیں ۔
سلام مسنون
June 5, 2012 at 11:40 PMمکرمی عبید بھائی
سب سے پہلے پسندیدگی پر شکریہ
آپ نے بالکل درست نشاندہی کی ہے کہ کچھ مدارس نے اپنی مدد آپ کے تحت اس جانب پیش رفت شروع کر دی ہے اور کچھ نمایاں مدارس کا اس حوالے سے کام قابل تقلید و قابل مثال ہے۔
لیکن مدارس کی موجودہ تعداد میں ایسے مدارس جو تبدیلی کی جانب بڑھ رہے ہیں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بلکہ اس سے بھی کم ہے۔
بلا شبہ یہ نمائندہ مدارس ہیں اور ان میں پائی جانے والی تبدیلی دیگر مدارس پر خود کار طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے
لیکن میرا خیال ہے کہ چھوٹے مدارس کے لیے نئی چیزوں کو اپنانا اور وفاق کے مطالبات کو بھی پورا کرنا دوہرا بوجھ ہو گا۔ اس لیے اصل تبدیلی تب واقع ہو گی جب وفاق ہائے مدارس مشترکہ طور پر اس جانب پیش قدمی کا فیصلہ کریں
راجہ بھائی !
June 5, 2012 at 11:52 PMجیسا کہ آپ نے خود لکھا ہے کہ یہ تبدیلی نمائندہ مدارس کی طرف سے دیکھنے میں آئی ہے اور وفاق کی ہدایت پر ان کے لیے ایسی تبدیلیوں کی تعمیل دوہرے بوجھ کا باعث ہوگا تو پھر کیسے وفاق ہائے مدارس ایسے مشکل امر کی ہدایت انہیں دے سکتی ہے ۔
کیونکہ آپ کو اندازہ ہوگاکہ دینی مدارس کسی حکومتی فنڈ کے سہارے کے بغیر عوامی چندوں(ڈونیشنز) پر چلائے جاتے ہیں ۔
اس لیے یہی ایک بہتر طریقہ کار ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ وسائل بڑھ جائیں تو وہ یہ تبدیلیاں لاگو کریں ۔
میری رائے میں یہ بوجھ صرف اس وقت ہے کہ وفاق پرانے نظام اور نصاب اور طریقہ کار پر اصرار کرے اور مدارس کچھ نیا کرنے کے خواہاں بھی ہوں۔
June 5, 2012 at 11:57 PMاگر وفاق ایسی تبدیلی پر غور کرے کہ اس کے مکمل نظام میں نئی آہنگ کی شمولیت ہو جائے اور وہ تمام ضروریات پیش نظر ہوں جو مطلوب ہیں تو مدارس پر دوہرا بوجھ نہیں پڑے گا
کیوں کہ پھر وفاق کا بوجھ اور نئی تبدیلیوں کا بوجھ علیحدہ سے نہیں ہو گا بلکہ وفاق کی متطلبات ہی نئی ضرورتوں کی آئینہ اور ہوں گی اور تحدیات زمانہ کے مقابلے پر پورا اترنے کے لیے کافی ہوں گی ۔
المختصر: اس سارے عمل میں وفاق ہائے مدارس کا کردار کلیدی ہے
وفاق ہائے مدارس کی گزشتہ پندرہ بیس سالوں کی تاریخ اس امر کی گواہی دے گی کہ ان وفاقوں نے پرانا نصاب برقرار رکھنے پر اصرار نہیں کیا ۔
June 6, 2012 at 9:45 PMمنطق و فلسفہ ، ہیئت و فلکیات اور متون کی وہ کتابیں جو درسِ نظامی میں شامل تھیں ، کی جگہ نئی کتابیں داخلِ نصاب کردیے گئے ہیں ۔
اسی طرح ایسے شعبہ ہائے علم و فن جوعصرِ حاضر کی مناسبت سے ضروری تھے ۔ مدارس میں رواج دیے گئے ۔
لیکن اس کایہ مطلب ہر گز نہیں کہ مدارس کو اس پر مطمئن ہوکر بیٹھ جانا چاہیے بلکہ خوب سے خوب تر کی جستجووقت کے ساتھ ساتھ ہوتی رہے گی ۔
اس کے مقابلے دو دیگر نظامہائے تعلیم کاذکر آپ نے کیا ہے ان کے ارباب اختیار نے خامیوں اور کوتاہیوں کے سلسلے میں کوئی خاص قدم نہیں اٹھایا۔
مدارس عربیہ کی جانب سے جو پیش رفت ہوئی اور جس کا ذکر آپ نے کیا وہ خوش آئند ہے۔ اور اس پیش رفت کی وجہ یہ ہے کہ مدارس میں وقت اور حالات کے تقاضوں کا احساس اجاگر ہو چکا ہے۔
June 6, 2012 at 11:02 PMباقی دو نظام ہائے تعلیم جن کا ذکر میں نے کیا ہے ان کا بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ وہ خود کو مریض ہی نہیں سمجھتے۔ احساس ہی اجاگر نہیں ہے ان کا۔
تو جب تک 'سب اچھا ہے' کے کلیے کو ہی اپنائے رہیں گے ان کی جانب سے پیش رفت ممکن نہیں۔
ان دو نظامہائے تعلیم کو بھی از سر نو اپنے نصابات کا جائزہ لے کر تشکیل نو اور ترتیب نو کی ضرورت ہے تا کہ اس نصاب تعلیم کو پڑھ کر نکلنے والے پاکستان کے مفادات، اسلامی اقدار اور معاشرتی ضرورتوں کو پورے اعتماد سے پورا کر سکیں۔
آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں
اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔