Pages

بنگلہ دیش، مشرقی تیمور اور سوڈان کے بعد اب بلوچستان



تحریر: راجہ اکرام الحق
امریکہ بالخصوص اور سارا عالم کفر بالعموم کسی نہ کسی طریقے سے کسی نہ کسی جگہ عالم اسلام کے خلاف اعلانیہ یا خفیہ طور پر کہیں برسر عمل ہے اور کہیں برسر پیکار۔ اور یہ آج کی بات نہیں بلکہ یہ حق و باطل  کی کشمکش اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ خود انسان کی ذات۔  عالم اسلام کے خلاف یہ مہم مختلف النوع ہے۔ کہیں بے بنیاد دعووں کی بنیاد پر براہ راست حملہ آور ہو کر، کہیں مسلم ممالک میں بسنے والی اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اور کہیں مسلم ممالک میں لسانی و علاقائی عصبیتوں کے بنا پر  اندرونی خلفشار پیدا کر کے۔
لیکن ان ساری حکمت عملیوں میں سے جو دور رس نتائج کی حامل ہے اور جس کے زخموں سے رستے خون کے دھبے کئی برساتوں کے بعد بھی نہیں دھلتے وہ ہے اسلامی ممالک کی علاقائی تقسیم، کبھی اقلیتوں کے حقوق کے نام پر اور کبھی لسانی بنیادوں پر۔
1971 میں پاکستان کو دو لخت کر کے بنگلہ دیش بنانا بظاہر  یوں لگتا ہے کہ ایوب خان کی نخوت اور ذو الفقار علی بھٹو کی انانیت کا نتیجہ ہے لیکن ان حضرات کی ان کاوشوں کے ساتھ ساتھ بیرونی طاقتوں کا منصوبہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں . اگر 2005 میں امریکی اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کی جانب  سے ڈی کلاسیفائیڈ کی گئی رپورٹ بعنوان "Pakistan  America Relations. A reassessment" دیکھی جائے تو بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ 1971 میں پیش کی جانے والی اس رپورٹ میں امریکہ بہادر کے عزائم کیا تھے۔  
پاکستان کو دو لخت کرنے کے بعد سامراج کی نظریں مسلمانوں کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا پر جم گئیں۔ پھر وہاں جو کچھ ہوا، اقوام متحدہ نے جس طرح مداخلت کی وہ حیران کن ہے۔ کشمیر، فلسطین اور برما میں جو انسانیت سوز مظالم نصف صدی سے بھی زائد عرصہ سے برپا تھے وہ  اس کے سوئے ہوئے ضمیر کو نہ جگا سکے ۔  دیکھتے ہی دیکھتے  مشرقی تیمور نام سے ایک عیسائی ریاست معرض وجود میں آ گئی۔
اس عظیم معرکے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اگلی نظر سوڈان پر جم گئی۔ وسیع رقبے پر محیط، قدرتی ذخائر اور بالخصوص تیل کی دولت سے مالا مال ایک اسلامی ملک امریکہ اور اس کی باندی اقوام متحدہ کی آنکھ میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا۔ بنگلہ دیش اور انڈونیشیا کی طرح یہاں بھی وہی حکمت عملی اپنائی گئی، علیحدگی پسندوں کو مظلوم ثابت کر کے  "انسانیت کی محبت" میں سرشار ہو کر ان کی مدد کے لیے خدائی مددگار کے طور پر  پہنچ گئے اور بالآخر سوڈان کو دو لخت کر دیا۔
لگتا یوں ہے کہ وہ اپنے تئیں مسلم دنیا کے ہر اس ملک کو نشانہ بناتے ہیں جن سے خطرہ ہوتا ہے کہ مستقبل میں وہ کسی ایسے مقام پر آ سکتا ہے جو ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکے۔  اسی لیے پہلے پاکستان، پھر انڈونیشیا اور اس کے بعد سوڈان کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل کھیلا۔  لیکن اس عظیم سانحے کے بعد بھی پاکستان نے  خود کو سنبھالا، حالات جیسے تیسے گزرتے گئے اور بالآخر پاکستان مسلم دنیا کا پہلا ایٹمی ملک بن کر دنیا کے سامنے آیا، جس کے بعد ایک بار پھر توپوں کا رخ پاکستان کی طرف ہو گیا۔
اس کے بعد عراق سے خطرہ تھا کہ وہ ایٹمی ہتھیار بنا سکتا ہے اس کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اب ایران ایک ایسا ملک ہے جو کسی بھی وقت ایٹمی طاقت بن سکتا ہے اس لیے سارے ہی عالم کفر کے پیٹ میں اس پر بھی مروڑ اٹھ رہے ہیں ۔
اب دنیائے اسلام کے دو ہی ممالک ہیں جو کسی بہتر پوزیشن  میں ہیں ، ایک ایران اور دوسرا پاکستان۔ اور آج امریکہ سمیت ساری ہی سامراجی طاقتیں ان دو ممالک کے خلاف بھرپور انداز سے سازشیں کرنے میں مصروف عمل ہیں۔  ایران پر پابندیاں لگانے کی مہم پورے زور و شور سے جاری ہے اور اسرائیل حملے کی تیاری کر رہا ہے۔
پاکستان کے خلاف خفیہ طور پر بلیک واٹر، ریمنڈ ڈیوس اور مختلف ہتھکنڈوں کے ذریعے سازشوں کے جال بنے گئے، دہشت گردی کی ایسی آگ لگائی گئی کہ پورا پاکستان لیپٹ میں آگیا۔ ایک  طرف حکومت پر دباؤ ڈال کر شمالی وزیر ستان سمیت اس پوری پٹی میں عوام اور فوج کو آمنے سامنے کر کے بغاوت کی کوشش کرائی گئی اور دوسری جانب بلوچستان کے ناراض لوگوں کو ہر طرح سے سپورٹ کر کے انہیں پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، انہیں بلوچستان میں بیس کیمپ مہیا کیے گئے جہاں سے وہ اپنی  سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔
ویسے تو یہ ساری سازش پس پردہ تھی کیوں کہ امریکہ بظاہر پاکستان کے ساتھ دوستی کا دم بھرتا تھا۔ لیکن جب سلالہ چیک پوسٹ کا سانحہ رونما ہو ا اور  نام نہاد دوستی کی دیوار میں دراڑ پڑ گئی تو امریکی جن بوتل سے باہر آ گیا اور وہاں بلوچستان کے حق میں قرار دادیں پیش ہونا شروع ہو گئیں۔  
صورتحال ایک بار پھر 1971 کی طرح ہے، علیحدگی پسندوں کو تب بھی بھارت کے ذریعے اسلحہ مہیا کیا گیا اور اب بھی وہیں سے ہر طرح کا تعاون ہو رہا ہے، بلکہ اب تو اور بھی کئی ممالک اس کار خیر میں حصہ ملا رہے ہیں۔ تب بھی بھارت سے مداخلت کروائی گئی اور پاکستان نے جب دوست سے مدد مانگی تو جواب بھیجا جانے والا ساتواں بحری بیڑا آج تک مدد کو نہیں پہنچ سکا۔  اور اب بھی بلوچستان میں شورش برپا کرنے کے ساتھ ساتھ افغانستان میں  بھارت کو مضبوط کیا جا رہا ہے تا کہ بوقت ضرورت مداخلت کرنی پڑے تو مشکلات نہ ہوں۔
اور آزاد بلوچستان کی اس سازش میں نہ صرف پاکستان بلکہ ایران کو بھی  گستاخی کی سزا دینے کا منصوبہ شامل ہے، کیوں کہ گریٹر بلوچستان کے نقشے میں نہ صرف پاکستانی علاقہ بلکہ ایران کا وہ حصہ جہاں بلوچ آباد ہیں وہ بھی اس منصوبے کا حصہ ہے۔
سامراج  دشمن تو روز اول سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں کرتے آئے ہیں اور کامیاب ہوتے آئے ہیں ۔ لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ مسلمان اس قدر دھوکے کھانے  اور ذلت آمیز شکست سے دو چا رہونے کے بعد بھی آج تک اپنی ان غلطیوں کا ازالہ نہیں کر سکے جن کے باعث دشمن ہر بار جیت جاتا ہے اور ہمارے حصے میں سوائے ہزیمت و ذلت کے اور کچھ نہیں آتا۔
اس وقت بلوچستان جس نازک دور سے گزر رہا ہے اس میں اگر اپنی غلطیوں اور زیادتیوں کا ازالہ نہ کیا گیا، حالات کے تقاضوں کو نہ سمجھا گیا، مظلوموں کی داد رسی نہ کی گئی اور بنگلہ دیش، مشرقی تیمور اور سوڈان جیسے واقعات سے سبق حاصل نہ کیا گیا تو پھر دشمن کو الزام دینے کا کوئی فائدہ نہیں کیوں کہ وہ تو  دشمن ہے اور وہی کرے گا جو اس کے مفاد میں ہے۔ قصور تو ہمارا ہے کہ ہم اپنے مفادات سے بے خبر ہیں اور خود ایسے مواقع فراہم کرتے ہیں کہ دشمن فائدہ اٹھائے ۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

بہترین معاشرے کی تشکیل میں عورت کا کردار



تحریر : راجہ اکرام الحق 

معاشرہ خاندان سے اور خاندان افراد سے بنتا ہے۔ یعنی کہ معاشرے کی بنیادی اکائی اور بنیادی جز فرد ہے، مختلف اجزاء یعنی افراد کے مجموعے سے کل یعنی معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ تو جب تک اجزاء یعنی فرد ہر  لحاظ سے مکمل، مفید اور با صلاحیت نہیں ہو گا تب تک بہترین معاشرے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکے گا۔
اس سے یہ نتیجہ نکلا کہ بہترین معاشرے کے لیے بہترین افراد کی ضرورت ہے، اور بہترین افراد کی تیاری کے لیے بہترین تربیت کا کردار انتہائی ابتدائی اور اہم ہے۔ 

فرد کی تربیت کے مختلف مراحل  ہیں جن سے گزر کر ایک بہترین فرد تیار ہوتا ہے جو آگے جا کر وہ خاندان اور پھر معاشرے میں اپنا کردار ادا کرنے کے قابل ہوتا ہے۔  تربیت کے ان مراحل میں سے سب سے اہم مرحلہ پیدائش سے لے کر سن شعور میں پہنچنے تک کا ہے، بلکہ جدید تحقیق کے مطابق یہ مرحلہ پیدائش سے کچھ ماہ قبل ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ 

اس ابتدائی مرحلے میں ایک عورت ماں کے روپ میں معاشرے کی تشکیل کا کار گراں مایہ سر انجام دینا شروع کر دیتی ہے۔  یہ تربیت اگر اچھے انداز سے ہو گی اور ان تمام تقاضوں کو پورا کرنے والے ہو گی جو ایک بچے کا قوم کا معمار اور بہترین معاشرے کا صورت گر بنانے کے لیے ناگزیر ہیں تو معاشرہ بہترین ہوگا ۔ لیکن اگر تربیت کے اس مرحلے میں ماں اپنے کردار سے غفلت برتے، یا بوجوہ کردار ادا نہ کر سکے اور تربیت میں کمی رہ جائے تو پھر بہتر معاشرے کی توقع رکھنا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے۔

بہترین معاشرے اور قوموں کی تشکیل میں عورت کی اسی اہمیت کے پیش نظر ہی ہٹلر نے کہا تھا کہ  "تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو میں تمہیں  پڑھی لکھی قوم دوں گا " یعنی پڑھی لکھی ، ترقی یافتہ اور بہترین قوم اور معاشرے کی تشکیل میں اصل کردار ماں کا ہے
اسی حوالے سے عربوں نے بھی عورت کی اہمیت کو محسوس کیا اور کہا کہ تعليم رجل واحد ھو تعليم لشخص واحد، بينما تعليم امرأة واحدة يعني تعليم أسرة بكاملھا‘‘ ایک مرد کو تعلیم دینا ’سکھانا‘ فرد واحد کو تعلیم دینا ہے جبکہ ایک عورت کو تعلیم دینا ایک پورے خاندان کو تعلیم دینے کے مترادف ہے۔ اس سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ ایک عورت کی تعلیم ایک پورے خاندان کی تعلیم کے مترادف ہے اور جب خاندان تعلیم یافتہ اور مہذب ہوں گے تو اس کے نتیجے میں بننے اور تشکیل پانے والا معاشرہ بھی بہترین ہو گا ۔ 

صرف بطور ماں ہی نہیں بلکہ بطور استاد بھی عورت کا کردار زیادہ اہم ہے۔ خاص طور پر تعلیم کے ابتدائی مراحل میں عورت کو ترجیح دی جاتی ہے۔ یہ صرف آج کی بات ہی نہیں شروع سے ہی بچے ابتدائی تعلیم اور قرآن پاک کی تعلیم خواتین کے پاس پڑھتے ہیں۔ جدید تعلیمی نظام کا جائزہ لیں تو مونٹیسوری اسکول سے  لے کر آگے کے مراحل تک خواتین ہی اہم کردار ادا کر رہی ہیں ۔ 

عورت کی اہمیت کسی لحاظ سے بھی مرد سے کم نہیں بلکہ شایدکہیں زیادہ ہوتی ہے کیونکہ ایک مرد علم حاصل کرکے زیادہ سے زیادہ اپنے گھر کے لے مفید واقع ہوسکتا ہے جبکہ عورت کی تعلیم کا اثر گھر و گھرانے سے بڑھ کر شہر و معاشرے تک پھیل جاتا ہے۔ ایک مہذب عورت ہی بہترین انسانی تہذیب و تمدن کی بنیاد رکھ سکتی ہے۔ ایک با کردار اور مضبوط ارادہ عورت ہی دلیر قوم کو جنم دیتی ہے۔ ایک پرہیزگار و صاحب تقویٰ عورت ہی متقی و عبادت گزار بندے تربیت کرتی ہے۔ بالاخر یہ ماں ہی ہے جو ابتدا میں اپنے بچے کی تربیت کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ اس کے پروان چڑھنے کے لیے مناسب ماحول فراہم کرتی ہے۔ اپنے گھریلو ماحول اور معاشرے کی فضاء کو اپنے اور دیگر بچوں کے لیے مہیا کرتی ہے۔ گویا جس معاشرے میں بھی تعلیم یافتہ خواتین کی کثرت ہوگی وہاں نہ صرف گھر کا ماحول بلکہ معاشرہ بھی انسانی نشو ونما کے لیے نہایت سازگار ہوگا۔ جیسا کہ مشہور ہے انسان کا لباس اس کی شخصیت کا آئینہ دار ہوتا ہے اسی طرح ایک پاک و پاکیزہ ماحول اور صاف ستھرا محلہ وہاں بسنے والوں کی شخصیت کی مفسر و مبیّن ہوتا ہے۔ یعنی ایک صاف ستھری گلی، پاکیزہ در و دیوار اور مہذب لوگ پڑھے لکھے معاشرے کی عکاسی کرتے ہیں۔

پوری تاریخ میں کہیں کوئی ایسی فتح دکھائی نہیں دیتی جس میں خواتین کے مضبوط ارادوں کے بغیر مردوں کو کچھ حاصل ہوا ہو۔ اسلام کے آغاز کی سختیوں میں ام عمارؒکی دلیرانہ شجاعت نظر آتی ہے، ہجرت حبشہ میں جناب ام حبیبہ نظر آتی ہیں، شعب ابی طالب میں جناب خدیجہ ؑ نمایاں دیکھائی دیتی ہیں۔ اسی طرح جناب فاطمہ زہرا ؑ جنگ بدر کے معرکے سے لے کر، احد کے میدان میں، خندق کے حصار میں، ہر جگہ مردوں کے شانہ بشانہ کہیں زخمیوں کی تیمارداری، کہیں مردوں کو رجزخوانی کے ساتھ حوصلہ اور وقت آنے پر ہاتھوں میں ہتھیار لے کر رسول اللہ ؐ کی جان کی حفاظت کرتی نظر آتی ہیں۔

المختصر  بہترین معاشرے کی تشکیل میں عورت کا کردار کلیدی ہے ۔ اگر اقوام عالم میں نمایاں مقام حاصل کرنا ہے تو ہمیں خواتین کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دینی ہو گی۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

نیا سال: نئی فکر اور نئی امید




دنیا میں مختلف قومیں مختلف ایام مختلف حوالوں سے مناتی آئی ہیں ۔ ان ایام کے پیچھے کوئی  تاریخی ورثہ یا کوئی ایسا تاریخی واقعہ ہوتا ہے جس کی یاد  منانے  یا کسی تاریخی انسان کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے یہ دن منائے جاتے ہیں۔ انسانی زندگی جب ترقی کے مراحل اور منازل طے کرتی آگے بڑھنے لگتی اور  مختلف اقوام نے فتوحات کے ذریعے دیگر اقوام کے علاقوں پر قبضہ کیا تو  مختلف قبائل اور اقوام کو مل جل کر رہنے اور زندگی بسر کرنے کا موقع ملا۔ اس دوران جہاں اور بہت سی عادات اور رسم و رواج منتقل ہوئے وہیں مختلف تہوار بھی منتقل ہوئے۔ان تہواروں میں سے بعض ایسے تھے جو کہ خاص مذہبی رنگ میں منائے جاتے تھے۔ اور کچھ ایسے تھے جو کسی علاقے کے ساتھ خاص تھے جن  میں کسی مذہبی تعلیم کا  عمل دخل نہیں تھا۔

دیگر کئی تہواروں کی طرح نئے سال کی پہلی رات یا نیو ایر نائٹ  New Year Night کو بھی ایک تہوار کا درجہ حاصل ہو گیا ہے اور یہ بھی ایک عرصہ سے دنیا کے مختلف ممالک میں بڑے زورو شور سے منائی جاتی ہے۔اس کا آغاز انیسویں صدی میں برٹش رائل نیوی کے ایک جہاز سے ہوا اور خشکی میں سب سے پہلے ء1910 میں ایک ساحلی شہر اینا ڈین میں منایا گیا۔ 1980ء تک تو یہ لعنت یورپ تک ہی محدود تھی لیکن اس کے بعد یہ مرض وبا کی طرح پھیلا اور پوری دنیا کوبشمول بر صغیر اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
وطن عزیز پاکستان میں پہلی بار 90کی دہائی میں اس تقریب کا آغاز ہوا ۔ کیوں کہ انگریز برصغیر سے چلا تو گیا لیکن جاتے جاتے ایسے انڈے بچے دے گیا جو اندھی تقلید میں اپنے اکابر سے بھی کئی ہاتھ آگے ہیں۔ پہلے پہل یہ صرف بڑے لوگوں کا شوق ہوا کر تا تھا لیکن اب سر عام اس رات کو منایا جاتا ہے۔ اربوں روپے کے جام چھلکائے جاتے ہیں، کروڑوں کی بجلی اور گیس ضائع کی جاتی ہے، انواع و اقسام کے کھانوں پر لاکھوں روپے لگا دیئے جاتے ہیں۔ سیکڑوں خواتین اپنی چادر عصمت تارتار کرواتی ہیں ، کیوں کہ عموما ایسی پارٹیوں میں سنگلز کی انٹری ممنوع ہوتی ہے۔

دو روز بعد ایک بار پھر نئے سال کا آغاز ہو رہا ہے اور یقینا ایک بڑی تعداد اس رات کو اسی طرح منانے کے لیے بے چین و بیتاب ہوں گے۔  نہ صرف عوام بلکہ بہت سے حکومتی اہلکار بھی پر تول رہے ہوں گے۔ لیکن اس بار وطن عزیز جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں وقت کا تقاضا یہی ہے کہ  حکومت کو اس قسم کی تمام تقریبات پر سختی سے پابندی لگا دینی چاہیئے۔ کیوں کہ ملک ویسے بھی دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ اربوں ڈالرز کے قرضے لیے جا رہے ہیں ۔ بجلی اور گیس نایاب ہو چکی ہے، بے روزگاری اور افراط زر کی بدترین صورتحال ہے ۔ ان حالات میں اس طرح کے کسی کام کی اجازت دینا بجائے خود حکومت کے عقل و شعور پر ایک سوالیہ نشان ہو گا ۔  اگر ان بے حیائی کے کاموں میں صرف ہونے والا پیسا بچا کر کسی مثبت کام میں صرف کیا جائے تو کئی لوگ اس سے مستفید ہو سکتے ہیں۔
خاص طور پر خادم اعلی جناب شہباز شریف صاحب کو اس پر خصوصی توجہ د ینی چاہیئے تاکہ وطن اور اہل وطن دونوں کے لئے بہتری ہو کیوں کہ اس قسم کے کاموں کے لئے داتا کی نگری ۔لاہور ۔ بہت مشہور ہے ۔ لہذا وہاں ہونے والی ہر ایسی سرگرمی کے ذمہ دار وہ براہ راست ہوں گے کیوں کہ یہ ان کی مسئولیت میں آتا ہے۔

اسلام خوشی منانے کے بالکل منافی نہیں ہے بلکہ صحت مند تفریخ کی حوصلہ افزائی کرتا ہے ۔ لیکن جس تفریح میں مال کے  اسراف کے ساتھ ساتھ جان کے ضیاع کا بھی خطرہ ہو ، معاشرے کی اخلاقی اقدار تباہ ہوتی ہوں، طبلے کی تھاپ پر جوانیاں ناچتی ہوں اور ہوس کے متلاشی ابن آدم مال و زر کے زور پر بنت حوا کی چادر عصمت تار تار کرنے پر تلے ہوں وہاں اسلام حکومت کو پابند کرتا ہے کہ اس کام کو روکے اور ذمہ داران کو قرار واقعی سزا دے۔ تاکہ معاشرہ بہتر انسانی اقدار کی روشنی میں ترقی کرتا رہے۔
اسلامی تہذیب کی بذات خود ایک مکمل اور جامع تہذیب ہے۔ اس میں جہاں انسان کی دیگر فطری خواہشات و ضروریات کا خیال رکھا گیا ہے وہیں خوشی کو منانے کے لئے ایسے تہوار بھی مقرر کر دئیے گئے ہیں جن میں انسان اپنی خوشی کا اظہار کر سکتا ہے۔ لیکن ایک خصوصیت جو صرف اسلام کی ہے وہ یہ ہے کہ آپ کسی بھی حالت میں ہوں، خوشی یا غمی، حد سے زیاتی کو برا جانا گیا ہے۔

ہر مسلمان کو خود اس موضوع پر سوچنا چاہیئے کہ اس مختصر زندگی  کا ایک اور سال بیت گیا، موت ایک سال مزید قریب آ گئی ۔ کیا یہ وقت رقص و سرود کی محفلیں سجانے، ناچنے اور بھنگڑے ڈالنے کا ہے یا یہ رات اپنے رب کے سامنے سر جھکا کر گزشتہ گناہوں اور کوتاہیوں کی معافی مانگنے اور آئندہ کے لیے راہ راست پر چلنے کی توفیق مانگنے کا ہے۔
بطور پاکستانی بھی ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم نے گزشتہ سال ملک و ملت کے لیے کون سا ایسا کام کیا جس سے بہتر نتائج کی توقع کی جا سکتی ہو۔ اگر نہیں کیا تو آئندہ کے لیے غور و فکر کریں اور ایسی منصوبہ بندہ کریں جو ہمارے لیے انفرادی سطح پر بھی اور اجتماعی سطح پر بھی مفید ہو۔  گزشتہ سال میں حالات و واقعات کی وجہ سے جو مایوسیاں پیدا ہوئی ہیں انہیں ختم کرنے اور امید کے دیے روشن کرنے کے لیے مثبت اور تعمیری سوچ کو پروان چڑھانے اور فروغ دینے کی اشد ضرورت ہے ۔ اس لیے مل کر سوچنا ہو گا کہ اس مقصد کے حصول کے لیے کون سی ایسی  حکمت عملی  ہو گی بہتر نتائج لا سکتی ہے۔
مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اسلام : حقوق نسواں کا سب سے بڑا محافظ



بعد از حمد و ثنا۔
افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے اقوام وجود میں آتی ہیں ۔ اقوام کی پر سکون زندگی اور پرامن بقا کے لئے انصاف اولین شرط ہے۔ کیونکہ اس کے بغیر بقائے باہمی نا صرف مشکل بلکہ ناممکن بن جاتی ہے۔ معاشرہ کے امن کو برقرار رکھنے کے لیے افراد کے کچھ حقوق مقرر کر دیئے گئے ہیں جن کی پاسداری سے پر امن فضا کا قیام ممکن ہے۔ ایک عرصہ تک ان حقوق کو بنیادی حقوق یا فطری حقوق کے نام سے موسوم کیا جاتا رہا لیکن وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے انسانی تمدن ترقی پذیر ہوتا رہا اور نئے نئے نقطہائے  نظر اور اصطلاحات کا ظہور ہوا تو بنیادی یا فطری حقوق "انسانی حقوق" کی اصطلاح کے ساتھ رائج ہونا شروع ہوئے۔

غیر اسلامی دنیا میں ان حقوق کو کس طرح تسلیم کروایا گیا، اس کے لئے کتنے لوگوں کو جان کے نذرانے پیش کرنے پڑے، یہ ایک تفصیل طلب بحث ہے اور تاریخ اس سے بخوبی واقف ہے۔لیکن یہ بات دلچسپ ہے کہ  اس تمام بحث میں انسان سے مراد صرف مرد لیا جاتا رہا جبکہ عورت ماضی قریب تک اسی استحصال کا شکار رہی جس کی وہ ایک عرصہ سے چلی آرہی تھی۔دوسری جنگ عظیم کے بعد اگرچہ اقوام متحدہ کی سطح پر باقاعدہ انسانی حقوق کے لئے کمیشن تشکیل دیئے گئے اور درجنوں دستاویزات وجود میں آئیں لیکن اس ساری مشق میں بھی عورت کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا گیا۔ ”انسانی حقوق کا عالمی منشور“ تشکیل پانے اور تمام ممبر ممالک کی طرف سے اسے اپنے قانون اور دستور کا حصہ بنانے کے باوجود عورتوں کے حقوق کے لئے الگ دستاویزات تیار کرنے کی ضرورت اس امر کی غمازی کرتی ہے کہ شاید  ان ارباب عقل کے نزدیک خواتین”انسان“ کی تعریف پر پورا نہیں اترتیں۔

1948ءمیں انسانی حقوق کے عالمی منشور کی تشکیل سے قبل اس حوالے سے کیا صورت حال تھی اور اس کی بہتری کے لئے کیا کیا کاوشیں ہوئیں اس کا مطالعہ بھی اہم ہے ۔ لیکن اس ضمن میں یہ سمجھنا کافی ہو گا کہ انسان کو اپنے فطری حقوق جو اسے پیدائشی طور پر حاصل ہیں انہیں حاصل کرنے ہی نہیں بلکہ صرف تسلیم کروانے کے لئے کئی صدیاں لگ گئیں۔ اس کے باوجود بھی یہ حقوق محدود طبقات کے لئے ہی تھے ۔ کہیں جاگیرداروں اور بادشاہ کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے ضمن میں جس کے نتیجے میں میگنا کارٹا (1215ء) وجود میں آیا، کہیں مزدوروں کے حقوق، کہیں سیاسی حقوق اورکہیں اس طرح کی دیگر اصطلاحات کی صورت میں کچھ دستاویزات سامنے آئیں۔

اسلام کے نقطہ نظر سے انسانی حقوق کا تصور اتنا ہی قدیم ہے جتنا کہ انسان کا وجودقدیم ہے۔ جب اللہ تعالی نے پہلا انسان روئے زمین پر بھیجا اور اسے ”اسماءکلھا“ کا علم دیا تو ساتھ ہی اسے دیگر افراد کے حقوق کا شعور بھی عطا کر دیا۔اور ہر نبی علیہ السلام کے پیغام میں یہ تمام حقوق سموئے ہو ئے تھے۔ لیکن بعد کے ادوار میں جیسے جیسے انسان نے آسمانی پیغام کو بھلا دیا اور اپنے انبیاءعلیہم السلام کی تعلیمات کو مسخ کر دیا تو ان حقوق کا تصور بھی ختم ہوتا چلا گیا۔ چونکہ انسانی فطرت ہے کہ اگر اسے کسی اعلی طاقت کا خوف نہ ہو تو وہ بہیمیت کی انتہا کو پہنچنے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ یہی وجہ ہے کہ  کمزوروں کو دبانا اور انہیں اپنی خدمت اور آسائش کے لئے استعمال کرنا انسانی تاریخ کا مکروہ ترین باب ہے۔ اور اس پورے کھیل میں چونکہ عورت سب سے کمزور اور قوت مدافعت سے عاری مخلوق تھی لہذا اس کی اس کمزوری سے بھر پور فائدہ اٹھایا گیا اور اسے جانوروں سے بھی بد تر سلوک کا سامنا کرنا پڑا۔ بازاروں کے میلوں میں ان کی خریدوفروخت کی جاتی تھی،راہبانہ مذاہب میں لڑکیوں کو باعث نحوست اور گناہ کا سرچشمہ تصور کیا جاتا تھا۔ اور ہندوستان کے بعض علاقوں میں تو آج بھی شوہر کی میت کے ساتھ عورت کو زندہ جلا دیا جاتا ہے۔

ترقی کے اس دور میں مغرب نے ”حقوق نسواں “اور ”آزادیءنسواں“کے خوبصورت نعرے کی آڑ میں جو حقوق عورت کو عطا کئے  ہیں وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ۔۔۔ اسے عملی طور پر طوائف اور داشتہ کی سطح پر لے آیا ہے، اسے ایک ایسی شے بنا ڈالا ہے جس سے مرد لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ آرٹ اور کلچر کے خوبصورت پردوں میں اس کا اس قدر استحصال کیا گیا کہ عملا جنس کے متلاشیوں اور کاروباریوں کے ہاتھوں کھلونا بن گئی۔

اسلامی تصور
اسلام میں حقوق کا تصور انتہائی جامع ہے اور اس میں” انسان “کی اصطلاح میں تمام طبقات شامل ہیں  اور  انسان ہونے کے ناطے تمام طبقات "بنیادی انسانی حقوق" کے یکساں مستحق ہیں۔ اگرچہ بعض معاملات میں بعض افراد کے کچھ خاص حقوق ہیں جیسا کہ ، والدین کے حقوق، بچوں کے حقوق، پڑوسیوں کے حقوق وغیرہ لیکن انسانی حقوق کی حد تک تمام افراد بلا تفریق رنگ و نسل، ملک و ملت، قبیلہ و برادری برابر ہیں۔یہاں چونکہ حقوق نسواں ہمارا موضوع بحث ہے لہذا دیگر طبقات کا صرف اشارہ ہی کافی ہو گا۔

موجودہ دور میں بطور خاص 11 ستمبر2001 ءکے بعد سے اسلام ہر لحاظ سے مورد الزام ہے جس میں دہشت گردی ، انتہا پسندی اور انسانی حقوق قابل ذکر ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ موجودہ حالات میں اسلام کا جو تصور مغربی ذرائع ابلاغ کی جانب سے پیش کیا جا رہا ہے یا خود بعض مسلمان ممالک میں بعض مسلمان جن جاہلانہ روایات پر عمل پیرا ہیں اس کی رو سے انسان یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اسلام نے عورت کے ساتھ ناانصافی کا رویہ روا رکھا ہے۔ جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے اور ہمارا دعوی ہے کہ" اسلام حقوق نسواں کا سب سے بڑا علمبردار ہے"۔ 

درحقیقت اسلام کی آفاقی اور انقلابی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور مرتبہءعزت عطا کیا ہے اور اگر اسلام کی طرف سے دیئے گئے حقوق کا اجمالی جائزہ لیا جائے  تو یہ حقیقت عیاں ہو جاتی ہے کہ ان حقوق کا تصور دیگر تہذیبوں میں نہ آج ہے نہ اس کی کوئی مثال ماضی کے کسی دور میں ملتی ہے۔

اس وقت دنیا کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ مسلمانوں پر مشتمل ہے، اور یہ آبادی دنیا کے بہت سے معاشروں میں منقسم ہیں۔ ان تمام معاشروں کا رہن سہن یکساں نہیں ہے اور ہر معاشرے میں اسلام پر اس کی روح کے مطابق عمل کرنا بھی ممکن نہیں۔ لہذا ان معاشروں کو دیکھ کر اس بات کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا کہ اسلام میں خواتین کے حقوق کیا ہیں؟بلکہ اس سلسلے میں اسلامی شریعت کے حقیقی مصادر سے براہ راست رہنمائی لینا ضروری اور قرین انصاف ہے۔ 

اسلام کے بنیادی مآخذ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ۔ اور ان مصادر سے ملنے والی تعلیمات نے عورت کو آج سے تقریبا 15 صدیاں قبل مرد کے برابر حقوق عطا کرتے ہوئے اسے مرد کی غلامی سے نجات دلائی جس میں وہ صدیوں سے جکڑی ہوئی تھی۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ بنیادی اسلامی مصادر کی روشنی میں حقوق نسواں کی نشاندہی کی جائے ۔البتہ اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ دیگر قابل ذکر مذاہب اور تہذیبوں کی تعلیمات پر بھی روشنی ڈالی جائے تاکہ اسلام کی تعلیمات کی جامعیت واضح ہوجائے (بضدها تتبين الاشياء)۔

مزید براں اس امر کی ضرورت بھی محسوس کی جاتی ہے کہ اسلام ایک عورت کو معاشرتی، معاشی، سماجی اورتمدنی لحاظ سے جو حقوق عطا کرتا ہے نیز معاشرے میں مختلف حوالوں سے عورت کے جوخصوصی حقوق عطا کئے گئے ہیں۔۔مثلا؛ ماں ، بہن، بیٹی وغیرہ ہونے کے ناطے ان کا تفصیلی جائزہ لے کر دنیا کے سامنے آشکار کیا جائے تا کہ ”حقوق نسواں “ اور ”آزادیءنسواں“ کے نام پر مذہب بیزار لوگوں کے پروپیگنڈے کا سد باب کیا جا سکے۔
دعا ہے کہ اللہ ہمیں اس کام کو بانداز احسن کر نے کی توفیق عطا فرمائے اور ہماری کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں شرف قبولیت سے نوازے۔ آمین

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

اسلام پسندوں کی فتوحات اور ضرورت احتیاط



یہ ایک مصدقہ حقیقت ہے کہ اسلام کی فطرت میں ایک ایسی قدرتی لچک ہے کہ اسے جتنا دبایا جائے اتنا ہی ابھرتا ہے۔ اور جب ابھرتا ہے تو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کے سامنے ٹھہر نہیں سکتی۔ ابتدائے اسلام سے ہی کفر نے پوری کوشش کی کہ اس نظام زندگی کو پھلنے پھولنے نہ دیا جائے، اس مقصد کے لیے انہوں نے ہر ممکن طریقہ آزمایا، نبی کریم صلی اللہ علیہ  و سلم کی ذات گرامی کو لالچ دے کر، پر کشش مراعات کا یقین دلا کر اور جب بات نہ بنی تو ایذا رسانی اور قتل کے منصوبوں تک نوبت پہنچ گئی۔ اور پھر پوری ملت کفر نے اسلام کو مٹانے کے لیے گٹھ جوڑ کر لیا لیکن یہ سارا دباؤ خود ان کے لیے وبال جان بن گیا اور اسلام اپنی اس قدرتی و فطری لچک کی وجہ سے ابھرتا ہی چلا گیا ۔ 

سقوط خلافت عثمانیہ کے کے بعد سے لے کر آج تک ایک بار پھر  اسلام اور مسلمان کسی نہ کسی طور پرغیر مسلم تسلط کے زیر سایہ رہے ۔ بلکہ ایک طویل عرصہ تک تمام ہی مسلم ممالک نو آبادیاتی نظام میں جکڑے رہے۔ اس نو آبادیاتی دور میں مسلمانوں کی تہذیب، کلچر، رسم و رواج اور زبان تک کو بدل دیا گیا۔ ایک طرف انگریز اور دوسری جانب فانسیسی طاقت نے مسلمانوں کی ظاہری و باطنی تباہی میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔  اور اب تک کسی نہ کسی صورت میں ان طاقتوں کا اثر و رسوخ مسلمان ممالک پر قائم ہے، حکومت سازی سے لے کر قانون سازی  اور پالیسی سازی تک ہر ہر پہلو ان کے زیر اثر ہے۔  ظاہری آزادی حاصل ہونے کے بعد بھی اب تک بیشتر مسلم ممالک اسی نظام یعنی سیکولرزم کو اپنائے ہوئے ہیں ۔ اسلام پسندوں کا ناطقہ بند کرنے کے لیے مصر  کے مصطفی کمال سے لے کر حسنی مبارک تک، ترکی کے کمال اتا ترک اور اس کے پیروکاروں اور تیونس میں علی زین العابدین جیسے حکمرانوں نے جس طرح اسلام دشمنی کی مثالیں قائم کیں وہ کسی تذکرے کی محتاج نہیں ۔ 

کیوں کہ اسلام زمانے میں دبنے کو نہیں   آیا اس لیے اس سارے عمل کا ایک رد عمل ضرور سامنے آنا تھا۔ 2011ء اس رد عمل کا سال ثابت ہوا۔ تیونس میں ایک نوجوان کی خود سوزی کے نتیجے میں شروع ہونے والا عوامی احتجاج بالآخر اسلامی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا اور اکتوبر میں ہونے والے انتخابات میں 52 فیصد نشستیں اسلام پسند لے گئے۔ یہ انقلاب اب تک کئی ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے اور کتنے ہی جابروں کا بوریا بستر گول کروا چکا ہے۔ تیونس کے بعد مراکش  میں بھی احتجاج شروع  ہوئے جس کے نتیجے میں انتخابات ہوئے تو وہاں بھی اسلام پسندوں نے معرکہ مار لیا ۔ مراکش میں حکام کے مطابق اعتدال پسند اسلامی جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (پی جے ڈی) نے پارلیمانی انتخابات جیت لیے ہیں۔ اب مصر میں انتخابات کا سلسلہ جاری ہے اور اب تک کی اطلاع کے اخوان المسلمون اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ہے۔ اس سے قبل ترکی میں سیکولرزم کے سخت پہرے میں اسلام پسندوں کی مسلسل کامیابی کے مناظر بھی دنیا دیکھ چکی کے۔ عسکری میدان میں دیکھا جائے تو  افغانستان میں مسلمان مجاہدین طالبان نے عالمی طاقت اور اس کے اتحادی چالیس سے زائد ممالک کی فوج کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں اور اب مذاکرات کرنے اور افغانستان سے باعزت واپسی کے لیے مختلف طرح سے پاپڑ بیل رہے ہیں۔

 اس سارے منظر نامے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلام اور اسلامی قوتیں ایک بار پھر ابھرنا شروع ہو گئی ہیں۔  لیکن یہ سب ملت کفر اتنی آسانی سے ہضم نہیں ہو رہا۔  سیکولر عناصر کی شکست پرمغربی نظریات سے متاثر جماعتیں خاصی پریشان ہیں۔دراصل سیکولر جماعتوں کو انتخابات سے قبل اپنی کامیابی کا پکایقین تھا۔ شکست سے دوچار ہونے کے بعد انہوں نے الزامات لگانے اور تیونس کے مستقبل کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کرنے شروع کردیے ہیں۔ مصر میں اخوان المسلمون کی نظر آتی کامیابی سے اسرائیل کے پیٹ میں مروڑ پڑنا شروع ہو چکے ہیں۔ اور اسرائیل کے خدشات براہ راست امریکہ کے خدشات تصور کیے جاتے ہیں کیوں کہ سارے کھیل کے اصل مہرے یہودیوں کے ہاتھ میں ہوتے ہیں۔ 

کامیابیوں کا یہ موسم بہت ہی احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر اٹھانا ہوگا۔ انتقال اقتدار کے سارے مراحل بہت ہی حکمت عملی کے ساتھ طے کرنا ہوگا۔ اسلام کا آغاز جس طرح بالتدریج ہوا، محرمات اور مکروہات کی تعلیمات جس طرح مرحلہ وار دی گئیں اور ان پر عمل در آمد کے لیے جو طریقہ کار اپنایا گیا  اس کی روح کے مطابق آئندہ کی منصوبہ بندی کرنا ہو گی۔  جلد بازی یا جذباتیت کا مظاہرہ منفی نتائج پیدا کر سکتا ہے۔  اس حوالے سے ترکی میں جو طریقہ کار اپنایا گیا اس کا مطالعہ کرنا، اسے سمجھنا اور اس کے مطابق لائحہ عمل طے کر کے معاملات کو آگے بڑھانا یقینا مفید ہو گا۔  

کامیابی یقینا خوشی کا احساس دلاتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ اس کامیابی پر اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لانے اور  اس موقع کو درست طور پر استعمال کرنے کی توفیق طلب کرنے  کی بھی ضرورت ہے۔ اور یقینا فتح مکہ کے موقع پر فاتح عظیم نبی رحمت صلی اللہ علیہ و سلم نے جو نمونہ ہمارے لیے چھوڑا اس سے بہتر کوئی مثال نہیں ہو سکتی۔ تشکر کے جذبات سے سر جھکا ہوا ہو ، دشمنوں کے لیے "لا تثریب علیکم الیوم " کا اعلان ہو اور "لتکون کلمۃاللہ ھی العلیا" کا مقصد عظیم منتہائے نظر ہو۔

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

واقعہ کربلااور اس کے تقاضے



شیطان نے جس دن حضرت آدم علیہ السلا م کو سجدہ کرنے سے انکار کیا تھا اس دن سے ہی حق اور باطل کے درمیان کشمکش کا آغاز ہو گیا تھا۔ زمین پر انسان کے نزول کے بعد سب سے پہلے ہابیل اور کابیل کا واقعہ رونما ہوا اور اس کے بعدسے آج تک تاریخ انسانی ایسے واقعات سے لبریز ہے کہ کس طرح ابلیس اور اس کے پیروکاروں نے حق پرست بندگان خدا کو راہ راست سے باز رکھنے کی کوشش کی اور باز نہ آنے والے افراد کو مختلف انداز سے ایذا رسانی کا سلسلہ جاری رکھا جو کہ ہنوز جاری ہے۔فرعون، نمرود، ہامان ۔۔۔۔۔۔۔وغیرہ اسی کا تسلسل ہیں ۔
ستیزہ کار رہا ہے ازل سے تا امروز
چراغ مصطفوی سے شرر بو لہبی

اسلامی تاریخ اپنی تمام تردرخشانیوں کے علی الرغم بعض ایسے واقعات لئے ہوئے ہے جو خون کے آنسو رلانے کے لئے کافی ہیں ۔ جن کو رونما ہوتے دیکھ کر زمین و آسماں پر سکتہ طاری ہو جاتا تھا۔ ان واقعات میں سے واقعہ کربلا سب سے دردناک ہے۔ اس واقعے کی تفصیلات سے شاید ہی کوئی مسلمان ناواقف ہو ۔ نواسہ رسول ، جگر گوشہ بتول اپنے بہتر جانثاروں کے ساتھ نکلے اور اپنے نانا صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل کرتے ہوئے باطل کے خلاف ڈٹ گئے۔ ان کی نگاہ میں تعداد اور مال و اسباب کی کوئی اہمیت نہیں تھی ۔ اگر ایسا ہوتا تو وہ کبھی یہ قدم نہ اٹھاتے ۔

جب خلافت ملوکیت میں تبدیل ہو گئی ، حکمران طبقہ عیش و عشرت میں مشغول ہو گیا ، شاہی خزانے کو اپنی ملکیت سمجھا جانے لگا ، اسلام کی بنیادی اقدار کا خاتمہ ہو گیا، نسلی اور قومی عصبیتوں کا دور شروع ہو گیا ۔ یزید کی حکومت قائم ہو گئی ۔ جس کی زبردستی بیعت لی جا رہی تھی ۔ امام حسین رضی اللہ عنہ نے بیعت سے انکار کر دیا ۔ اور بیعت کر بھی کیسے کر سکتے تھے ۔ اپنے نانا کی سنتوں سے کیسے منہ موڑ سکتے تھے ۔ تربیت ہی ایسی تھی کہ اسلام کے خلاف کوئی قدم اٹھانا تو کجا سوچا بھی نہیں جا سکتا تھا۔
کوفہ کا علاقہ اسلامی تاریخ میں مختلف وجوہات کی بنا پر اچھے نام سے یاد نہیں کیا جاتا۔ اس واقعہ میں بھی ان کا کردار قابل تعریف نہ رہا۔ انہوں نے خطوط بھیج کر امام حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا کہ آئیے ہم آپ کی بیعت کریں گے ۔ امام حسین اپنے اہل و عیا ل کے ساتھ کوفہ جانے کے لئے تیا ر ہوئے ۔ آپ کے قافلے میں معصوم بچے اور خواتین بھی شریک تھیں۔
سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت مشیت الہی تھی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ خبر پہلے ہی دے دی تھی کہ حسین رضی اللہ عنہ اپنی جان کا نذرانہ دے کر اسلام کی آبیاری اپنے خون سے کریں گے ۔ لیکن جن حالات میں یہ واقعہ پیش آیا ، اس کا جو پس منظر تھا اسے جاننے سے اس قربانی کی اہمیت مزید اجاگر ہوجاتی ہے اور دل میں عظمت حسین رضی اللہ عنہ میں اضافہ ہوتا ہے ۔

تعداد صرف بہتر ، جن میں سے بھی 32سوار اور 40پیادہ ۔ کوئی فوج نہیں ۔اپنوں سے سینکڑوں میل دور ، خواتین اور بچوں کے ساتھ ۔ دوسری جانب چار ہزار فوج ، مسلح اور تربیت یافتہ ۔ان حالات میں اتنا بڑا قدم اٹھانا اور ناحق کے سامنے جھکنے سے انکا ر کر دینا بلا شبہ قربانی کا بہت اعلی مرتبہ ہے۔ ایں سعادت بزور بازہ نیست
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشا لب بام ابھی
معرکہ بپا ہو گیا ایک ایک کر کے تمام جانثار شہید ہوتے گئے ۔ آخر میں جنت کے نوجوانوں کے سردار رہ گئے ، نماز عصر کا وقت ہوا آپ نے نماز شروع کی جب آپ سجدے میں اپنے رب کے قریب ہوئے تو شمر نے آپ علیہ السلام کو شہید کر دیا ۔ (انا للہ و انا الیہ راجعون(
ہر سال کی طرح اس سال بھی 10محرم الحرام کا دن گزر گیا۔ ہم میں سے ہر کسی نے روایتی انداز میں اپنی محبت کا اظہار کرنے کی کوشش کی ۔ جلسے جلوس ہوئے، ریلیاں نکالی گئیں، ماتم ہوئے الغرض ہر کسی نے اپنے انداز سے اظہار محبت کے لئے کوشش کی۔
لیکن سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا اس طرح ہم محبت کا حق ادا کرنے میں کامیاب ہوگئے؟
کیا سنت شبیری ہم سے یہی تقاضا کرتی ہے ؟ کیا روز حشر ہم سر اٹھا کر یہ کہہ سکیں گے کہ ہم نے حق ادا کر دیاتھا؟ کہیں ہم دیگر رسم و رواج کی طرح یہ دن بھی صرف تقریبات میں تو نہیں گزار رہے؟

آج امت مسلمہ جن حالات سے دوچار ہے وہ ان سے چنداں مختلف نہیں ہیں جن میں امام شہید رضی اللہ عنہ نے عظیم قربانی دی۔ اگر مسلمان کفار کے مقابلے میں عددی لحاظ سے کم ہیں تو وہ بھی چار ہزار کے مقا بلے میں صرف بہتر تھے۔ اگر ہم جدید جنگی سازو سامان کے لحاظ سے دشمن سے کم ہیں تو ان72میں سے بھی صرف 32سوار تھے باقی پا پیادہ تھے۔اس پر مزید یہ کہ یہ قافلہ جنگ کے لئے تیار ہو کر نہیں گیا تھا کیوں کہ بچوں اور خواتین کو جنگی فوج میں نہیں رکھا جاتا۔ اور ہمارے پاس تیاری کے لئے بے شمار وقت ہے ۔ اگر ایک بار پھر وہی جذبہ بیدار ہوجائے تو وہ وقت دور نہیں جب چہار دانگ عالم میں اسلام کا پرچم لہرا رہا ہو اور پوری انسانیت امن اور چین کے ساتھ اسلام کی رحمتوں سے بہرہ ور ہو۔
اور اگر ہم کامیاب نہ بھی ہوئے تو کم از کم تاریخ ہمیں اچھے الفاظ میں یاد تو رکھے گی ۔ کیوں کہ کربلا میں اگرچہ امام حسین رضی اللہ عنہ اپنے چند جانثاروں کے ساتھ شہید ہو گئے اور بظاہر ابن زیاد میدان جنگ میں کامیاب رہا ۔ اور جنگ کے بعد کوفہ کی جامع مسجد میں اس نے امام حسین رضی اللہ عنہ کا سر رکھ کر یہ اعلان بھی کیا کہ امام حسین ہار گئے اور یزید جیت گیا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ امام حسین ہار کر جیت گئے اور یزید جیت کر ہار گیا کیوں کہ یہ خالق کائنات کی سنت ہے کہ فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے ۔ اس پر مزید یہ کہ جو حیات جاوداں اور تذکرہ خیر امام حسین کے حصے میں آیا وہ دوسروں کے لئے کہاں۔
نہ شمر کی وہ جفا رہی نہ ابن زیاد کا وہ ستم رہا
رہا تو نام حسین کا جسے زندہ رکھتی ہے کربلا
آج کا دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ایک بار پھر متحد ہو جائیں ، آپس کے اختلافات کو ختم کر کے اسلام کے حیقیقی پیغام کو دنیا تک پہنچانے کے لئے نواسہءرسول صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت پر عمل پیرا ہو جائیں تاکہ کسی اسرائیل کی دوبارہ یہ ہمت نہ ہو کہ فلسطین کے نہتے مسلمانوں پر چڑھ دوڑے۔ کسی افغانستان اور عراق پر امریکہ کو حملہ کرنے کی ہمت نہ ہو ۔ لیکن اس کے لئے ہمیں وہ جگر پیدا کرنا ہوگا کیوں کہ۔۔۔ آج ایک بار پھر وقت ہم سے تقاضا کر رہا ہے کہ
نکل کر خانقاہوں سے ادا کر رسم شبیری

مکمل تحریر اور تبصرے >>>

افواج پاکستان نشانہ :: امتیازی رویوں کا نتیجہ



26نومبر کو افغانستان میں "دہشت گردی کے خلاف جنگ" کے فریضہ مقدسہ پر مامور نیٹو افواج نے پاکستانی سرحد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنے ہی اتحادی افواج، افواج پاکستان کی چوکی پر حملہ کر کے 24 باوردی جوان شہید کر دیے۔  شہادت پانے والوں میں صرف سپاہی نہیں بلکہ میجر رینک تک کے اہلکار شامل تھے۔ 

اس واقعہ کے بعد ہمارے عسکری قائدین و ارباب اقتدار   کو جن چیزوں احساس پہلی بار ہوا اور بڑی شدت سے ہوا وہ  ملکی سلامتی، حدود کی خلاف ورزی، استحکام پر حملہ زیادہ قابل زکر ہیں۔
خلاف معمول  پاکستان نے اس کاروائی پر سخت رد عمل کا اظہار کیا اور فوری طور پر افواج پاکستان کے سربراہ نے اس حملے کی مذمت کرتے ہوئے نیٹو کی سپلائی کو معطل کرنے کا حکم دے دیا۔   حکومت نے سخت احتجاج کیا، کابینہ کے اجلاس بلائے گئے، افغانستان سے  احتجاج کیا گیا کہ ان کے زمین ہمارے خلاف استعمال ہوئی ہے، دفتر خارجہ نے امریکہ سفیر کیمرون منٹر سے وضاحت طلب کی ۔ الغرض وہ سب کچھ ہوا جو ایسے موقع پر ہونا چاہیے لیکن پہلے نہیں ہوتا تھا۔

یہ واقع کیوں رونما ہوا؟ یہ دانستہ تھا یا غیر ارادی ؟  اس کے اصل محرکات اور اسباب کیا ہو سکتے ہیں اس حوالے سے ایک سے زائد آراء پائی جاتی ہیں ۔  ایک خیال یہ بھی ہے کہ امریکہ جو کہ پاکستان پر ایک عرصہ سے دباؤ ڈال رہاہے کہ حقانی نیٹ ورک کے خلاف شمالی وزیرستان میں کاروائی کریں اور دہشت گردوں کے ساتھ جو روابط ہیں انہیں ختم کریں لیکن پاکستان مسلسل روابط کی تردید اور کاروائی سے تردد کر رہا ہے۔ اور گزشتہ ماہ کابل میں طالبان کے حملے اور ربانی کے قتل کے بعد یہ تک کہا گیا کہ اگر "کاروائی نہ کی گئی تو پاکستان کو بھاری قیمت چکانا پڑے گی اور ہم خود کاروائی کا حق رکھتے ہیں"۔ ہو سکتا ہے یہ اسی قولی بیان کا عملی نمونہ ہو۔ الغرض جو بھی ہوا اور جس وجہ سے بھی ہوا انتہائی افسوس ناک ہے ۔ 

ایک اہم بات جس کی جانب اس سارے مباحثوں اور مذاکروں میں کوئی توجہ نہیں دی گئی وہ یہ ہے کہ ہمیں اس حال تک پہنچانے میں سب سے اہم اور اصل سبب ہمارا امتیازی رویہ  ہے۔ ہم مساوات کے بلند بانگ دعوں کے باوجود تفریق آدمیت  کا شکار ہیں ۔ ہم وردی والے میں اور بغیر وردی والے میں فرق کرتے ہیں۔ ہم امیر اور غریب میں فرق کرتے ہیں، ہم افسر اور نوکر میں امتیاز کرتے ہیں۔

گزشتہ دس سال سے پاکستانی عوام کو خاک و خوں میں نہلا دیا گیا، 35 ہزار کے لگ بھگ لوگ اس نام نہاد اتحاد کا ایندھن بن گئے، پاکستان کے تعلیمی اداروں سے لے کر کاروباری مراز اور تو اور مساجد تک غیر محفوظ ہو گئیں۔ یہاں تک  عوامی حفاظت پر مامور ادارے بھی بلند و بالا قلعوں میں محصور ہو کر رہ گئے لیکن نہ ہمارے ارباب اختیار پر اور نہ عسکری قائدین کے کان پر کوئی جوں تک رینگی ۔  روز ڈرون حملے ہوتے رہے اور اپنی ہی سرزمین سے ہوتے رہے لیکن ہم نے مجرمانہ خاموشی سادھے رکھی۔ 

اب جب باوردی لوگ صرف 24 کی تعداد میں اس "دہشت گردی" کا شکار ہوئے تو عسکری قیادت سے لے کر ایوان اقتدار تک سب ہی تلملا اٹھے، ملکی سلامتی، سرحدوں کا تحفظ، خود مختاری، اور نہ جانے کون کون سی چیزیں پہلی بار انہیں خطرے میں محسوس ہوئیں۔ نیٹو سپلائی بند، بون کانفرنس میں شرکت سے معذرت اور ایئر بیسسز خالی کرنے کا فوری حکم نامہ جاری کر دیا گیا۔ 

اگر روز اول سے ہی پاکستان کے ارباب اقتدار ہر شہری کو یکساں تصور کرتے اور ایک عام فرد کی ہلاکت پر اس طرح  رد عمل کا اظہار کرتی۔ سرحدوں کی خلاف ورزی کو پہلے دن سے ہی ملکی سالمیت اور خود مختاری  پر حملہ تصور کرتی اور ملکی وقار کو وہی اہمیت دیتی جو 24فوجی جوانوں کی شہادت کے بعد سامنے آیا ہے تو نہ ریمنڈ ڈیوس آتے، نہ سانحہ ایبٹ آباد پیش آتا اور نہ سلالہ چیک پوسٹ پر ہم اپنے قیمتی 24 جوان یوں ضائع کرتے۔ ہمارے اس دوغلے رویے نے ہمیں اس حال تک پہنچایا ہے کہ جب کسی کا دل چاہا چڑھ دوڑا ۔ 

اب بھی وقت ہے کہ اگر ہم ہر شہری کو یکساں اہمیت دیں اور ہر طرح کی بیرونی مداخلت پر ایسا ہی جرات مندانہ رد عمل ظاہر کریں تو ہم اپنا کھویا ہوا وقار، تباہ شدہ امن اور روٹھی ہوئی خوشیاں واپس لا سکتے ہیں ۔  
مکمل تحریر اور تبصرے >>>