Pages

11.18.2011

ترقی کی ضمانت ۔۔ دین یا لادینیت

ترقی اور کامیابی کی خواہش ہر انسان کے دل میں پیدائشی طور پر موجود ہے۔ جیسے ہی انسان شعور کے میدان میں قدم رکھتا ہے دوسروں سے آگے نکلنے کی دوڑ میں لگ جاتا ہے۔ تعلیمی میدان ہو یا کھیل کا میدان، اچھے روزگار کی طلب ہو یا کاروبار کا ذکر ، یا پھر معاشرے میں اچھے مقام کی تگ و دو، زندگی کے ہر شعبے میں مقابلے اور مسابقت کا سماں ہے۔ یہ ایک فرد کا حال ہے۔ انہی افراد سے معاشرہ اور معاشرے سے قومیں تشکیل پاتی ہیں۔
مسابقت اور مقابلے کا یہ عنصر فرد سے معاشرے میں آجاتا ہے اور دوسروں سے آگے نکلنے کے لئے اجتماعی تگ و دو کا آغاز ہو جاتا ہے۔ قوم کے اجزائے ترکیبی میں رنگ، نسل، زبان، علاقائیت اور مذہب یا نظریہ جیسے عناصر شامل ہیں لیکن ان سب میں اہم اور موثر عنصر مذہب ہے۔ کیوں کہ نظریات اور مذہب پر تشکیل پانے والی اجتماعیت پائیدار اور دیر پا ہوتی ہے۔
مذہب یا نظریہ جو کسی بھی قوم کی بنیاد ہو وہ فطری اور بشری تقاضوں کو اپنی تعلیمات کا حصہ بناتا ہے، کیوں کہ اگر فطری تقاضوں کا لحاظ نہ کیا جائے تو اجتماعیت تا دیر بحال نہیں رہ سکتی۔ انہی فطری تقاضوں میں ایک ترقی اور کامیابی کا حصول ہے لہذا ہر مذہب اور نظریہ اپنے پیروکاروں کی ترقی کے لئے ایسے اصول وضع کرتا اور انہیں اپنی بنیادی تعلیمات کا حصہ بناتا ہے کہ اگر ان کے مطابق زندگی گزاری جائے تو یقینی کامیابی مقدر ہوتی ہے۔ اور اگر روگردانی برتی جائے تو ایک وقت کے بعد زوال شروع ہو جاتا ہے تباہی مقدر بن جاتی ہے۔ جس کی بے شمار مثالیں انسانی تاریخ میں موجود ہیں جن میں اپنی بنیادی تعلیمات سے روگردانی کرنے والی قومیں صفحہ ہستی سے حرف غلط کی طرح مٹا دی گئیں۔ اور جو اپنی تعلیمات پر کاربند رہیں انہوں نے دنیا پر حکومت کی۔
لیکن آج کل دنیا میں سیکولرازم کا طوطی بول رہا ہے۔ اہل دانش و بینش ، مغرب کے فاضلین اور سوشلسٹ اکابر کے خوشہ چین اس بات پر ایمان کی حد تک متیقن ہیں کہ کامیابی کی تمام راہیں سیکولر ازم یا لا دینیت کے چوراہے سے گزر کر جاتی ہیں، اور ترقی کی راہ میں واحد رکاوٹ دین یا مذہب ہے۔
ان روشن خیال دانشوروں سے اگر تاریخ انسانی سے کوئی مثال طلب کی جائے تو ہزاروں سال پر مشتمل اس تاریخ میں سے وہ صرف ایک مثال پیش کر سکتے ہیں اور کرتے ہیں۔
 مذہب کی وجہ سے زوال و ناکامی اور ترک مذہب اور دین بیزاری کے باعث ترقی و کامیابی کی مثال وحید جو آج تک بطور دلیل پیش کی جاتی ہے وہ یورپ کا عصر تاریک (ڈارک ایج)   ہے۔
مگر بدقسمتی سے وہ مثال ”سوال گندم جواب چنا“ کے مصداق ان کے دعوے کا بھرم نہیں رکھ سکتی کیوں کہ دلیل دعوے کے مطابق نہیں۔ اصول یہ ہے کسی بھی مسئلے پر بات کرنے سے پہلے اس کے اجزاءکا علم ضروری ہے، اور مثال پیش کرتے ہوئے مسئلے کے بنیادی اجزاءکو پیش نطر رکھنا ہی اہل علم کا شیوہ ہے۔
بطور مثال اگر مذہب کی بات ہو، ترقی اور زوال میں اس کے کردار کی ہو تو مذہب اور اس کی بنیادی تعلیمات کے علم کے ساتھ ساتھ قوم کی ترقی کے لئے بتائے گئے اصولوں اور ان کی روشنی میں کار جہاں گیری کا ادراک بھی انتہائی ضروری ہے۔ تاکہ اس مذہب سے منسوب قوم کے زوال کا جائزہ لینے یا مذہب کو زوال کا سبب قرار دینے سے پہلے یہ دیکھ لیا جائے کہ آیا مذکورہ قوم بنیادی تعلیمات اور کار جہاں گیری کے اصولوں پر کار بند تھی یا نہیں؟ ورنہ صرف مذہب سے نسبت ترقی کی ضمانت نہیں ۔ 

عصر تاریک (ڈارک ایج )  کا اگر مختصر جائزہ لیا جائے تو یہ وہ دور ہے جب یورپ کی زمام اقتدار عیسائی رجال دین اور اہل کلیسا کے ہاتھ میں تھی۔ اہل کلیسا کی بات حرف آخر تھی اور اس سے اختلاف کا مطلب اپنی موت کا جواز مہیا کرنے یا موت کے پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف تھا۔ دینی و دنیاوی تمام معاملات میں اہل کلیسا کی رائے وحی سماوی کا درجہ رکتھی تھی۔ سزا و جزا کے تمام اختیارات کا منبع کلیسا تھا۔
 ایک جانب انجیل مقدس کی تعبیر و تشریح کا اخیتار اور دوسری طرف زمین کی ہیئت ، اجرام فلکی کی حرکت جیسے خالص دنیوی معاملات مکمل طور پر اہل کلیسا کے ہاتھ میں تھے۔ کئی نامور سائنس دان اور فلسفی صرف اختلاف رائے کی پاداش میں جان سے جاتے رہے اور کئی ایک کو سر عام زندہ جلا دیا گیا۔ فکرو اظہار پر قدغن کا نتیجہ فکری انجماد اور بے عملی کی صورت میں نکلا۔ اور یہی انجماد قوموں کی حیات میں زوال اور موت کا نقطہ آغاز ہوتا ہے۔ ترقی کی راہیں مسدود ہو گئیں، آگے بڑھنے کا جوش و ولولہ دم توڑ گیا اور تاریخ انسانی کا کئی صدیوں پر محیط عرصہ ہمیشہ کے لئے عصر تاریک کے نام سے موسوم ہو گیا ۔
لیکن یہاں جو بات غور طلب ہے وہ یہ ہے کہ کیا اس وقت اہل کلیسا عیسائیت کی حقیقی تعلیمات پر کاربند تھے؟ کیا سیدنا عیسی علیہ السلام کی تعلیمات ہی ان کے تمام معاملات میں مشعل راہ تھیں؟کیا فکرو اظہار پر پابندی اور مرتکبین کے لئے سزائیں انجیل مقدس کی روشنی میں دی جاتی تھیں؟ کیا سیدنا عیسی علیہ السلام جیسا رحمدل انسان اتنی ظالم اور بھیانک تعلیمات دے سکتا ہے؟ ان تمام سوالات کا جواب یقینا نفی میں ہے۔
در حقیقت اس وقت جو عیسائیت رائج تھی وہ تحریف شدہ تھی، اناجیل اربعہ آسمانی وحی کے بجائے انسانوں کی آراءکا مجموعہ تھیں جو سیدنا عیسی علیہ السلام کی وفات سے سینکڑوں برس بعد تحریر کی گئیں۔ بلکہ اسے عیسائیت کے بجائے پولس کی تعلیمات کہا جائے تو زیادہ مناسب ہو گا۔ اور سینٹ پولس (سینٹ پال)  یہودی الاصل اور عیسی علیہ السلام کے بد ترین دشمنوں میں سے تھا، آپ کی وفات کے بعد عیسائیت قبول کی اور اپنی ذہانت کی بنا پر وہ مقام حاصل کیا کہ عیسائی اسے اپنا امام و پیشوا تصور کرنے لگے۔ جس سے فائدہ اٹھا کر اس نے عیسائیت کی بنیادیں ہی ہلا دیں۔
 توحید کی جگہ تثلیث کا عقیدہ لانے میں اس کا اہم کردار رہا۔ اپنے مقام و مرتبے اور اپنی ذہانت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اس نے عیسی علیہ السلام کی لائی ہوئی تعلیمات کے بجائے ایسی تعلیمات کو عیسائیت میں شامل کر دیا جس نے عیسائیت کو عصر تاریک کی صورت میں ایک مستقل بد نما داغ دیا۔ اور جب عصر تاریک ختم ہوا اور اہل یورپ نے مذہب کا دامن چھوڑ کر سیکولرزم کا سہارا لیا تو ترقی کی منازل طے کرتے بام عروج کو پہنچے۔جسے دلیل بنا کر مذہب کو ترقی کا دشمن کہا جانے لگا۔ مگر ان تعلیمات کو مذہب کہنا اور اس کی ناکامی کو دلیل بنا کر مذہب کو زوال اور ناکامی کا سبب گرداننا سراسر زیادتی اور مذہب بیزاری ہے۔

حقیقت امر یہ ہے کہ دین و مذہب تو ترقی اور کامیابی کا ضامن ہے جس کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں بکھری پڑی ہیں۔ ایک زندہ مثال جو عصر تاریک  ہی میں عرب کے ریگزاروں میں قائم ہو ئی۔ جب یورپ تاریک دور سے گزر رہا تھا عین اسی وقت ریگستان عرب میں اسلام کا سورج طلوع ہوا۔ اہل اسلام نے مذہب کی حقیقی تعلیمات کو مشعل راہ بنایا، بنیادی حقوق کا تحفظ کیا گیا، فکرو اظہار کی مکمل آزادی دی گئی۔رنگ و نسل اور امیر و غریب کے تمام امتیازات مٹا دیئے گئے۔ دیکھتے ہی دیکھتے عرب کے بدو اپنے وقت کی مہذب ترین اقوام کو تہذہب سکھاتے نطر آئے۔ مختصر عرصے میں دنیا کی امامت ان کے قدموں میں تھی۔ اور جب تک مذہب کی حقیقی تعلیمات پر کاربند رہے حکمرانی کرتے رہے۔ قلیل تعداد ہو کر بھی بڑی بڑی افواج پر فتح حاصل کرتے رہے اور اقلیت میں ہو کر بھی سینکڑوں سال اکثریت پر حکمرانی کی۔
اگر یہ مثال دی جا سکتی ہے کہ یورپ نے مذہب اور ملائیت سے چھٹکارا حاصل کیا تو ترقی اور کامیابی ملی، تو آخر یہ مثال کیوں نہیں دی جاتی کہ مسلمان جب تک اپنے مذہب پر عمل کرتے رہے دنیا پر حکمرانی کی اس لئے اگر کامیابی چاہیے تو مذہب کی طرف لوٹنا ہو گا۔
لیکن وہ ایسا کون کہے؟ اہل دانش کی فکری خوراک کا سرچشمہ تو مغرب ہے جہاں سے روشن خیالی اور اسلام دشمنی کے پرچار کا معاوضہ ملتا ہے۔
ہمیں بحیثیت مسلمان اپنا انداز فکر اور زاویہ نظر تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ دیگر اقوام کے عروج و زوال کے قصے عبرت و نصیحت کے لئے ضرور پڑھیں مگر تقلید کے لئے نہیں۔ ہماری اپنی تاریخ اتنی جامع ہے کہ اس میں عروج و زوال کے تمام اسباب موجود ہیں، بس ذرا فکر و تدبر کی ضرورت ہے۔
اللہ ہمیں عقل سلیم کے استعمال اور نقل صحیح کے مطابق عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین
 

0 comments:

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔