Pages

3.27.2012

جوہری توانائی کا تحفظ : پس پردہ حقائق ، ممکنہ صورت



تحریر: راجہ اکرام الحق
جوہری ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے اور دنیا کو  "جوہری دہشت گردی" سے بچانے کے اعلانیہ ایجنڈے کے تحت دوسری جوہری تحفظ کی سربراہی کانفرس جنوبی کوریا کے دار الحکومت سیول میں 26 مارچ کو منعقد ہوئی۔  اس سلسلے کی پہلی کانفرنس12 اور 13 اپریل  2010ء کو امریکہ کے شہر واشنگٹن ڈی سی میں منعقد ہوئی تھی، کانفرنس میں دنیا بھر کے پچاس سے زائد ممالک  اور تنظیموں نے شرکت کی جن میں پاکستان اور بھارت بھی شامل ہیں۔  ۔  کانفرنس کا ایجنڈا تین نکاتی تھا ؛

  •  جوہری دہشت گردی کے خطرے سے نمٹنے کے لیے اقدامات  
  •  جوہری مواد اور اس سے متعلق  سہولیات کا تحفظ
  • جوہری مواد کی غیر قانونی نقل و حرکت کی روک تھام 
اس دو روزہ اجلاس میں کون کون سی چیزیں زیر بحث آئیں اور آئندہ کے لیے کیا لائحہ عمل طے کیا گیا اس حوالے سے بے شمار تفصیلات ذرائع ابلاغ میں جا بجا موجود ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ جوہری تحفظ کے ان اجلاسوں کا اصل اہداف کیا وہی ہیں جن کا تذکرہ برسر منبر کیا جاتا ہے یا اصل مقاصد اور اہداف پس پردہ ہیں جنہیں "جوہری دہشت گردی" سے بچاؤ کے پردے میں رہ کر حاصل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔؟
اصل ہدف جس کا  چرچا ہے اور جس کے نام پر خرچا ہو رہا ہے وہ جوہری ہتھیاروں کو دہشت گردوں کے ہاتھوں میں لگنے سے بچانے کے اقدامات ہیں لیکن  اجلاس کے دوران ہونے والے خطاب اور بالخصوص کانفرنس کے بانی اور روح رواں امریکی صدر کا خطاب اگر سنا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ یا تو اس طرح کے اجلاس کااصل مقصد وہ نہیں جو بتایا جاتا ہے یا پھر یہ سمٹ اپنے ہدف سے بہت دور جا چکا ہے۔
اس سے پہلے 2010ء میں ہونے والے پہلے اجلاس کا اگر جائزہ لیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ اس پروگرام کا اصل ہدف دنیا کے دیگر ممالک کو جوہری توانائی سے دور کر کے امریکہ اپنی اجارہ داری اور چودہراہٹ قائم کرنے کے لیے پیش رفت کر رہا ہے۔ اسی طرح کی صورتحال اس بار کے اجلاس کے بعد سامنے آئی ہے۔  کیوں کہ اگر کانفرنس کا ہدف واقعتا جوہری مواد کا تحفظ ہے تو اس ایجنڈے میں سر فہرست ایسے اقدامات ہونے چاہیے تھے جن کے ذریعے موجودہ مواد کو محفوظ سے محفوظ تر بنایا جا سکے تا کہ ان تک دہشت گردوں کی رسائی ممکن نہ رہے اور پر امن مقاصد کے لیے ان سے استفادے میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔  نیز جن ذمہ دار ممالک کے پاس جوہری توانائی کے حصول کی صلاحیت ہے اور وہ اسے پر امن مقاصد کے لیے یا اپنے دفاع کو بہتر بنانے کے لیے  حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے ساتھ ہر ممکنہ تعاون کیا جائے تا کہ اس پر صرف چند ممالک کی اجارہ داری نہ رہے۔  اس کے پیش نظر ضروری تھا کہ اس کانفرنس میں وہ تمام ممالک شریک ہوں جو یہ توانائی رکھتے ہیں اور وہ بھی جو اس کے حصول کے بالقریب پہنچ چکے ہیں یا اس حوالے سے کوشش کر رہے ہیں اور عالمی برادری میں متنازعہ فریق کے طور پر دیکھے جاتے ہیں۔ تا کہ تمام  متعلقہ ممالک کا موقف سامنے آ جاتا اور بہتر حکمت عملی طے کرنے میں کامیابی ہوتی۔ لیکن گزشتہ بار کی طرح اس بار بھی  اس اجلاس میں مدعو نہیں کیا گیا۔ اور پھر دوران اجلاس ان کو تنبیہ بھی کی جاتی رہی۔

اس اجلاس سے ہٹ کر اگر پاکستانی ایٹمی صلاحیت کے حوالے سے امریکہ بہادر اور ان کے جغادریوں کے تیور دیکھے جائیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ  ان کے لیے قابل ہضم نہیں ہے۔ اور اس سے بڑھ کر وہ دوہرا معیار جو بھارت اور پاکستان کے حوالے سے برتا جاتا ہے کہ ایک طرف بھارت کے ساتھ معاہدے اور تعاون اور دوسری طرف پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر تشویش کے اظہار اور اس کے خاتمے کے لیے کوششیں۔ 

حالات اس نہج پر جا رہے ہیں کہ کسی بھی چیز کو آئی سو لیشن میں رکھ کر نہیں دیکھا جا سکتا پورے منظر نامے کی ہر ہر کڑی کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ یہ اجلاس اور اسے سے قبل جوہری توانائی کے حوالے سے امریکہ اور اس کے ہمنواؤں کی حکمت عملی سے واضح ہے کہ اس کا اصل مقصد اپنی بالادستی کے برقرار کی کوشش ہے جس  کے لیے  ہر اس ملک پر چڑھ دوڑنے کے لیے تیار ہے جو اس جانب پیش رفت کرتا ہو۔ اس حوالے سے ایران، شمالی کوریا اور پاکستان کےساتھ امریکی سلوک شاہد عدل ہے۔ 

جوہری توانائی کی تابکاری اور اس کے نقصانات اپنی جگہ لیکن اگر اس کا مؤثر اور تعمیری استعمال کیا جائے تو  اس کے فوائد بھی بے شمار ہیں ۔ تاہم اس کا ایک اہم فائدہ  کسی بڑی عالمی جنگ کے امکانات کا خاتمہ ہے۔ لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ توانائی ہر فریق کے پاس یکساں موجود ہو۔ کیوں کہ اگر  فریقین کے پاس ہو گی تو استعمال کا امکان نہیں اور اس کی مثال پاکستان اور بھارت سے لی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر کسی ایک کے پاس ہو اور دوسرے کے پاس نہ ہو تو پھر استعمال کے امکانات کئی گناہ بڑھ جاتے ہیں۔  اس کی مثال تاریخ میں موجود بھی ہے اور آئندہ کے لیے امکان اور توقع بھی ہے۔  مثال بھی امریکہ بہادر نے پیش کی جب صرف اس کے پاس یہ توانائی تھی  اور جاپان کے پاس نہیں تھی تو امریکہ نے بلا خطر استعمال کیا ، اور آئندہ بھی امریکہ ہی سے توقع کی جا سکتی ہے کہ اپنی انا کی ناک اونچی رکھنے اور اپنی مزعومہ عالمی قوت برقرار رکھنے کے لیے وہ کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ 

اگر حقیقت پسندی سے سوچا جائے تو جوہری مواد کے منفی استعمال اور اس کی تابکاری سے بچنے کی دو ہی صورتیں ہیں۔ یا تو تمام ہی ممالک تابکاری والے مواد کو  تلف کر دیں اور صرف  توانائی  کے مقاصد کے لیے ضروری مواد پر اکتفا کریں، یا پھر تمام ہی ممالک کے پاس یکساں صلاحیت ہو تا کہ کسی کو دوسرے پر جارحانہ اقدام کرنے کی جرات نہ ہو۔ بصورت دیگر امریکہ اور دگر بڑی طاقتیں اپنی چودہراہٹ قائم کرنے کے لیے یونہی سب کو بیوقوف بناتی رہیں گی اور ترقی پذیر ممالک کے لیے اس حوالے سے ہونے والے تمام ہی اقدامات و اجلاس  نشستن، خوردن و برخاستن سے زیادہ کچھ نہیں ہوں گے۔

3 comments:

Jatala نے لکھا ہے

سب کچھ دیکھتے سمجھتے ہوئے بھی مسلمان حکمران اور خاص طور پر پاکستانی عوام مجرمانہ غفلت کا شکار ہیں۔

ملت کا درد رکھنے والے ہی کے قلم سے ایسی تحریر رونما ہوسکتی ہے۔
راجہ صاحب قلم کا جہاد جاری رکھیں، ان شاٗ اللہ کسی دل پہ تو اثر ہوگا

March 28, 2012 at 3:12 AM
Unknown نے لکھا ہے

السلام علیکم
مسلمان حکمران چونکہ اب تک فیصلہ کرنے میں خود مختار نہیں ہو سکے اس لیے اگر کچھ کرنا چاہیں تو بھی نہیں کر پائیں گے ۔
جب تک تمام طوق گلے سے اتار کر محمد عربی صلی اللہ علیہ و سلم کی غلامی کا طوق گلے میں نہیں ڈال لیتے تب تک وہ مؤمنانہ فراست نصیب نہیں ہو سکے گی جس سے درست فیصلے کر سکیں ۔

March 28, 2012 at 3:38 AM
dr Raja Iftikhar Khan نے لکھا ہے

حضرت نیٹشن ناٹ اسلام دشمنی وہ نہیں ہمارے اپنے اور ہم کررہے ہیں، دشمن ہمیشہ دشمن کو شکست دینے کےلئے تیار اور کاربند رہتا ہے، مگر جب دوست و گھر والے یہ کام کریں تو وہ لمحہ فکریہ ہوتا ہے اور ہمارے ہاں بدقسمتی سے یہ کچھ ہورہا ہے

March 28, 2012 at 3:56 AM

آپ بھی اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔